Maktaba Wahhabi

795 - 829
ہے ۔ مختلف اقوال میں سے احتیاطی بات یہ ہے کہ مسافر تین یا چار روز تک قصر کرے اور اگر زیادہ مدت قیام کی نیت ہو تو پوری پڑھے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ ’’حجۃالوداع‘‘ کے موقع پر چار ذوالحجہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ تاریخ کو یہاں سے نکلے ان دنوں مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام عزم و جزم (پختہ ارادے) سے تھا۔ اس کے علاوہ دیگر روایات جن میں مختلف اعداد کا ذکر ہے، یہ تردّد(غیر یقینی حالت) پر محمول ہیں۔ ان سے عزم و جزم کے ساتھ کسی ایک جگہ قیام کا اظہار نہیں ہوتا۔ اس صورت میں بلا تحدیدِ ایام (دنوں کی تعیین کے بغیر) قصر پڑھی جا سکتی ہے۔ لہٰذا بلا معقول عارضہ بحالتِ اقامت (بغیر کسی عذر کے مقیم ہونے کی حالت میں) فعل قصر کو اختیار کیے رکھنا شکوک و شبہات سے خالی نہیں جب کہ حدیث میں ہے: (( دَع مَا یُرِیبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیبُکَ)) [1] یعنی شکی شئی کو چھوڑ کر غیرشکی کو اختیار کرنا چاہیے۔ کتنے دن نمازِ قصر ادا کی جاسکتی ہے؟ سوال: سفر میں کتنے دن نمازِ قصر ادا کی جاسکتی ہے؟ جواب: عزم و جزم کی صورت میں تین چار دن مسافر قصر کر سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر ۴؍ذوالحجہ کو مکہ میں داخل ہوئے اور آٹھ کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قیام بہ نیت عزم و جزم تھا اور تردّد کی صورت میں بلا تعیین أیام قصر پڑھنا درست ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت کی پختہ نیت نہ کرے قصر کر سکتا ہے خواہ کئی سال گزر جائیں۔[2] مسافر کتنی مدت تک نماز قصر ادا کرے گا؟ سوال: کتنی مدت تک مسافر نمازِ قصر ادا کرے گا؟ جواب: مسافر جب تک چار دن سے زیادہ بلا جزمِ اقامت سفر(بغیر پختہ عزم) میں ہو تو وہ قصر کرسکتا ہے۔ اس حالت میں چاہے کئی سال گزر جائیں۔[3]
Flag Counter