Maktaba Wahhabi

821 - 829
دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکیں۔ کیا خطیب وعظ، نصیحت، سیاسی گفتگوغیر عربی زبان میں پڑھ سکتا ہے؟ سوال: کیا نمازِ جمعہ سے قبل وعظ و نصیحت و سیاسی گفتگو اور تقریر کو صحیح خطبہ جمعہ قرار دینا کسی صحیح دلیل سے ثابت ہے ؟ جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور سلف صالحین سے خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں ثابت ہے۔ اپنی اپنی مختلف زبانوں میں خطبہ جمعہ دینا کیونکر جائز و سنت ہے؟ جب کہ پوری دنیا میں نماز صرف عربی میں ہوتی ہے اس کے علاوہ جائز نہیں تو یہاں ردّ و بدل کس دلیل سے؟ جواب: جمعہ کا خطبہ غیر عربی زبان میں دینا جائز و درست ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (( کَانَت لِلنَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خُطبَتَانِ ، یَجلِسُ بَینَھُمَا یَقرَأُ القُراٰنَ، وَ یُذَکِّرُ النَّاسَ)) [1] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خطبے ہوتے تھے۔ ان کے درمیان بیٹھتے۔ ان میں آپ قرآن مجید پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ ظاہر ہے کہ تذکیر اسی زبان میں ہو گی جس کو سامع سمجھتا ہو۔ اسی حکمت و مصلحت کے پیشِ نظر اﷲ عزوجل نے انبیاء علیہم السلام کو ہم زبان لوگوں میں مبعوث فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ﴾ (ابراہیم:۴) ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا۔ تاکہ انھیں(احکامِ الٰہی) کھول کھول کر بتادے۔‘‘ مزید آنکہ لفظِ خطبہ بھی خطاب کا متقاضی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ خطیب کے بالمقابل ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اس کی بات اور گفتگو کا اِدراک و شعور رکھتے ہوں۔ ورنہ ساری بات چیت لاحاصل، اور بے فائدہ اور جانور کے گلے میں ڈھول لٹکانے کے مترادف ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خطیب مقامی لوگوں کی زبان کو محوِگفتگو بنائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرد کا تصورِ خطبہ بلا سامع ( خطبہ کا تصور بغیر سننے والے کے) ناممکن ہے۔ اس میں عدد وہی شرط ہے جو اقامتِ جماعت میں ہے۔ ((اَلاِثنَانِ فَمَا فَوقَھُمَا جَمَاعَۃٌ)) [2] یعنی دو فما فوق (اور دو سے اوپر) جماعت ہے۔ بالفرض
Flag Counter