Maktaba Wahhabi

826 - 829
اَقَامَ وَصَلَّی جَمَاعَۃً ‘‘[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہو چکی تھی انھوں نے اذان اور اقامت کہہ کر باجماعت نماز پڑھی۔ امام عید سے فوت شدہ نماز عید باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ البتہ سلف میں سے بعض اس بات کے قائل ہیں کہ دو رکعتوں کے بجائے بایں صورت چار رکعتیں پڑھی جائیں۔ دیگر نے کہاہے کہ باجماعت دو رکعتیں اور اکیلا پڑھے تو چار۔[2] لیکن ظاہر یہ ہے کہ صرف دو رکعتوں پر اکتفاء کی جائے۔ عید کو جمعہ پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہ جمعہ کا بدل ظہر ہے جب کہ عید کا کوئی بدل نہیں جمعہ کے دن عید ہونے پر جمعہ یا نمازِ ظہر کا حکم: سوال: عرض ہے کہ ہمارے خطیب محترم نے فتویٰ دیا ہے کہ عید اور جمعہ جمع ہونے کی صورت میں عیدپڑھنے کے بعد جمعۃ المبارک کا خطبہ مع نماز جمعہ یا نمازِ ظہر معاف ہے۔ پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیارہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ نوازش ہو گی۔ جواب: عید اور جمعہ کے اجتماع کی صورت میں بلاشبہ ترکِ جمعہ کی اجازت ہے۔ لیکن اس کے ترک کی صورت میں نمازِ ظہر ہر صورت پڑھنی ہو گی، اس لیے کہ ظہر اصل ہے اور جمعہ اس کا بدل ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ ’’الدررالبہیۃ‘‘میں فرماتے ہیں:کہ جمعہ کا وقت ظہر کا وقت ہے۔ ’’الروضۃ الندیۃ‘‘(۱؍۱۳۷) میں ہے کیونکہ جمعہ ظہر کا بدل ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ ’’ نیل الأوطار‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ کا یہ نظریہ کہ ترکِ جمعہ کی صورت میں ظہر بھی معاف ہے، مرجوح مسلک ہے۔ جب کہ ترکِ ظہر پر صریح کوئی نص موجود نہیں ماسوائے اس کے کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ میں عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے، کہ ان کے عہد میں عید اور جمعہ اکٹھے ہو گئے تو انھوں نے نمازِ عید پڑھائی اور اس کے بعد عصر تک گھر سے نہیں نکلے۔[3] لیکن یہ ایک خاص واقعہ ہے ۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘ میں اصول بیان فرمایا ہے، کہ خاص واقعہ سے عام استدلال نہیں ہو سکتا۔ اس واقعہ میں احتمال ہے کہ شاید گھر میں اکیلے یا باجماعت نماز پڑھ لی ہو۔ اس بناء پر علامہ محمد بن اسماعیل الامیر رقمطراز ہیں:
Flag Counter