Maktaba Wahhabi

836 - 829
’’المرعاۃ‘‘ (۲؍۳۴۵) ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے شیخ امام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ اپنے فتاویٰ میں رقمطراز ہیں:ہر چند سنت و افضل عید کی نماز صحراء میں ہے، مگر مسجد میں پڑھنے کا جواز بِلا خلاف ہے۔ لہٰذا حرمین شریفین میں قدیم الأیام ،سے یہی متعارف ہے۔ عورتوں کا مسجد میں نمازِ عید باجماعت ادا کرنا: سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں، آج کل عورتیں عید کے اجتماع کے لیے مسجد میں جمع ہو جاتی ہیں اور ایک عورت پہلی صف کے درمیان میں کھڑی ہو کر تمام عورتوں کو نماز پڑھاتی ہے جب کہ مرد حضرات گاؤں سے باہر جمع ہو کر عید کی نماز پڑھتے ہیں۔ جواب: نمازِ عید کا مسنون طریقہ عورتوں کے لیے بھی یہی ہے، کہ باہر مردوں کی جماعت کے ساتھ شریک ہو کر عید ادا کریں۔ عہدِ نبوت میں اس پر عمل تھا۔ چنانچہ حدیث میں ہے ، حضرت اُمّ عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، کہ ہمیں حکم دیا گیا، کہ ہم (سب عورتوں کو گھر سے)نکالیں(حتی کہ) حیض والیوں اور پردہ والیوں کو ( بھی) دونوں عیدوں میں، تاکہ (سب) حاضر ہوں مسلمانوں کی جماعت(نماز) اور ان کی دعا میں اور (فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے) الگ رہیں ،حیض والیاں اپنے مصلیٰ سے ( یعنی وہ نماز نہ پڑھیں)، لیکن مسلمانوں کی دعاؤں اور تکبیروں میں شامل رہیں، تاکہ اﷲ کی رحمت اور بخشش سے حصہ پائیں۔ ایک عورت نے عرض کیا، کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو؟ (تو پھر وہ کیسے عید گاہ جائے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :چاہیے کہ اس( بے چادر والی) کو اس کے ساتھ والی عورت چادر اوڑھا دے (یعنی چادر کسی دوسری عورت سے عاریۃً لے لے) [1] مصنف مرحوم پھر فرماتے ہیں: نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کی بھولی، بسری کشتنی اور زندہ درگور عورت پر مردوں کی طرح تعلیم فرض قرار دی فرمایا: ((طَلَبُ العِلمِ فَرِیضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسلِمٍ …)) [2] یعنی ہر مسلمان (مرد وعورت پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔) محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے نمازوں اور جمعہ کے خطبے سننے کے لیے مسجد کا دروازہ کھول دیا۔
Flag Counter