Maktaba Wahhabi

841 - 829
دو خطبوں کے قائل ہیں، ان کا استدلال بعض ضعیف روایات سے ہے۔ اسی طرح وہ خطبہ عید کو جمعہ کے خطبہ پر قیاس کرتے ہیں۔ بعض اہلِ علم نے اس مسلک کو اختیار کیا ہے۔ لیکن یہ مذہب مرجوح ہے۔راجح بات پہلی ہے۔کیونکہ ثانی الذکر کی دلیل کمزور ہے، اور اس پر قیاس کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے کہ عبادات میں اصل ’’عدمِ قیاس‘‘ ہے۔ کیا عید کا ایک خطبہ ہی ہونا چاہئے یادو : سوال:کیا عید کا ایک خطبہ ہی ہونا چاہئے یادو خطبے دینے کی گنجائش بھی ہے؟ جبکہ امام نسائی نے ایک عام حدیث سے دو خطبوں کے جواز پر استدلال کیا ہے؟ جواب:صحیح روایات کے مطابق عید کا خطبہ ایک ہی ہے اور جن روایات میں دو کا ذکر ہے، ان میں کلام ہے۔ (ملاحظہ ہو :مرعاۃ المفاتیح۲؍۳۳۰) اور سوال میں نسائی کی ذکرکردہ روایت صحیح توہے لیکن اس میں دو خطبوں کی تصریح نہیں اور ابن ماجہ کی روایت میں تصریح تو ہے لیکن وہ ضعیف ہے، اس میں راوی اسماعیل بن مسلم بالاجماع ضعیف ہے اور دوسرا راوی ابوبکر بھی ضعیف ہے۔ اس سلسلہ میں ایک روایت مسند بزار میں بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔[1] عیدین کے خطبے کتنے ہیں؟ سوال: عیدین کے خطبے کتنے ہیں؟ جواب: راجح مسلک کے مطابق عید کا صرف ایک ہی خطبہ ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث میں صرف ایک ہی خطبے کا ذکر ہے۔ جن روایات میں دو کا ذکر ہے، وہ صحیح نہیں۔ عید کے دن نمازِ عید کے بعد بغلگیر ہوں یا مصافحہ کریں؟ سوال: عید کے دن بعد نمازِ عید بغلگیر ہونا جائز ہے یا صرف مصافحہ ہی کیا جائے؟ جواب: سنت میں دونوں امور میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔ نمازِ عید کے بعد مصافحہ یا معانقہ؟ سوال: اخبار کا تراشہ پیش خدمت ہے جس میں بحوالہ بخاری شریف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعد عیدین مصافحہ و
Flag Counter