Maktaba Wahhabi

842 - 829
معانقہ منقول ہے، اور معاشرے میں اس کا رواج بھی ہے۔ جب کہ ہمارے محلے کی مسجد کے امام جو عیدین کی امامت بھی کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ عید کے موقع پر گلے ملنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ رسم دنیا ہے۔ اس کو دین کی بات سمجھنا، اور نہ کرنے والے کو لائقِ ملامت سمجھنا، بدعت ہے۔آپ سے درخواست ہے، کہ واضح فرمائیں، کہ اخبار میں دیا جانے والا حوالہ کتب دین میں موجود ہے یا نہیں؟ اور بات کہنا امام کا درست ہے یا اخبار مضمون کے مصنف کا ؟ (محمد حنیف مخدوم۔ سمن آباد لاہور) (۱۷ جولائی ۱۹۹۸ء) جواب: کتاب و سنت کی صحیح نصوص سے نمازِ عید کے بعد مصافحہ اور معانقہ کرنا ثابت نہیں۔ مضمون نگار کے بیان کردہ بعض مسائل صحیح بخاری میں ہیں۔ سب نہیں۔ ان میں مشارٌ الیہ مسئلہ شامل نہیں۔ البتہ بعض ضعیف آثار میں عید، مہینہ اور سال کے موقع پر پیغامِ تہنیت کا ذکر ہے۔ مجموعۂ آثار کو بعض اہلِ علم نے قابلِ عمل سمجھا ہے۔ اس بناء پر وہ مندوب ہونے کے قائل ہیں۔ ان میں سے شارح صحیح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی ہیں۔ جب کہ دیگر بعض نے اس کو بدعت کہا ہے اور بعض نے کہاہے کہ یہ عمل مباح ہے نہ سنت ہے اور نہ بدعت۔ [1] عید کے موقع پر گلے ملنا اور ’’ عید مبارک‘‘ کہنا: سوال: عید کے موقع پر گلے ملنے اور ’’ عید مبارک‘‘ کہنے کی کتاب وسنت سے کوئی دلیل ہے؟ ایک مولانا صاحب نے فرمایا کہ عید کے موقع پر گلے ملنا بدعت ہے مہربانی فرما کر کتاب وسنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرما دیں۔ جواب: عید کا دن مسلمانوں کے لیے خوشی اور باہمی موّدت ومحبت کے اظہار کا دن ہے۔ لہٰذا اس میں خوشی کااظہار ہونا چاہیے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بسند حسن جبیر بن نفیر سے بیان کرتے ہیں، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب عید کے روز جب آپس میں ملاقات کرتے تو تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنکَ (اللہ ہماری اور تمہاری عید قبول فرما لے! کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے۔ [2] امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ کہ اس میں کوئی حرج نہیں، کہ ایک آدمی دوسرے کو عید کے دن ’’تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنکَ‘‘ کہے۔ حرب نے کہا، کہ امام احمد سے سوال ہوا کہ عیدین میں لوگ یہ کہتے ہیں ’’ تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ
Flag Counter