Maktaba Wahhabi

863 - 829
حالانکہ جنازے میں اس کا اصلاً ثبوت ہی نہیں ہے (جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے تصریح کی ہے) اور قرأت کی نفی کرتے ہیں جو کہ احادیث وآثار سے ثابت ہے۔(کتاب احکام جنائز) لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے صحیح طُرق سے صرفِ نظر کرکے محض ضعیف طریق پر اعتماد کر بیٹھنا سراسر بے انصافی اور مسلک پروری ہے۔ امید ہے راہِ حق کے متلاشی کے لیے یہ چند دلائل کافی ہوں گے۔(والتوفیق بید اللّٰہ) نمازِ جنازہ میں رفع الیدین : سوال: نمازِ جنازہ میں رفع الیدین ثابت ہے یا نہیں؟ جواب: نمازِ جنازہ کی تکبیرِ اولیٰ میں رفع الیدین پر جملہ اہلِ علم متفق ہیں۔ باقی تکبیرات میں اختلاف ہے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ بحوالہ کتاب ’’الاشراف والاجماع ‘‘ لابن المنذر فرماتے ہیں: ((أَجمَعُوا عَلٰی أَنَّہٗ یُرفَعُ فِی أَوَّلِ تَکبِیرَۃٍ، وَاختَلَفُوا فِی سَائِرِھَا )) [1] ’’پہلی تکبیر پر رفع الیدین تو بالاجماع مشروع ہے۔ لیکن باقی تکبیرات پر رفع الیدین میں اختلاف ہے۔‘‘ البتہ امام ترمذی نے اپنی ’’جامع‘‘ میں باقی تکبیرات میں رفع الیدین کو اکثر اہلِ علم کی طرف منسوب کیا ہے۔ فرماتے ہیں: ((وَاختَلَفَ أَھلُ العِلمِ فِی ھٰذَا، فَرَأَی أَکثَرُ أَھلِ العِلمِ مِن أَصحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، وَغَیرِھِم أَن یَّرفَعَ الرَّجُلُ یَدَیہِ فِی کُلِّ تَکبِیرَۃٍ عَلَی الجَنَازَۃِ، وَ ھُوَ ابنُ المُبَارَکِ وَالشَّافِعِیُِّ، وَأَحمَدُ، وَاِسحٰقُ۔ وَ قَالَ بَعضُ أَھلِ العِلمِ: لَا یَرفَعُ یَدَیہِ إِلَّا فِی أَوَّلِ مَرَّۃٍ، وَ ھُوَ قَولُ الثَّورِی، وَ أَھلِ الکُوفَۃِ)) یعنی اہلِ علم کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم میں سے اکثر اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ جنازہ میں ہر تکبیر پر رفع الیدین کی جائے۔ یہی قول ابن المبارک،امام شافعی،احمد اور اسحاق کا ہے۔بعض اہلِ علم صرف پہلی تکبیر میں رفع الیدین کے قائل ہیں۔ یہ قول امام ثوری رحمہ اللہ اور اہلِ کوفہ کا ہے۔ جو لوگ تمام تکبیرات میں رفع الیدین کے قائل ہیں، وہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں:
Flag Counter