Maktaba Wahhabi

883 - 829
ہوگیا۔ اٹھو، اس کی نمازِ جنازہ پڑھو۔‘‘ اور صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے:((قَد تُوِّفِّی الیَومَ)) [1]آج فوت ہوا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میت پر نمازِ جنازہ اس کے لیے دعا ہے اور یہ میت کے کفن میں ملفوف ہونے کی صورت میں جائز ہے تو غائبانہ یا قبر پر اس کے لیے کیوں جائز نہیں۔ (فتح الباری ۳؍۳۱) اور شوکانی رحمہ اللہ ’’الدررالبہیۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: کہ صلوۃِ جنازہ قبر پر پڑھی جائے اور غائب میت پر بھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ میت کے دفن یا عدمِ دفن سے اصل مسئلہ کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا معاملہ دونوں کا ایک جیسا ہے۔ قصہ نجاشی عموم کی دلیل ہے۔لیکن موجودہ صورت میں میت کی آمد کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ اس کی آمد متوقع ہے۔ غائبانہ نمازِ جنازہ کے لیے اشتہاری مہم : سوال: آج کل شہید کی غائبانہ نمازِ جنازہ باقاعدہ اشتہاری مہم کے ذریعہ تشہیر کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ رکشوں پر اعلانات کرکے دھوم دھام سے اپنی جہادی کارکردگی کو مبالغہ آمیز انداز سے بیان کیا جاتا ہے، لوگوں میں اپنا حلقہ وسیع اور اثر ورسوخ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ تعزیت مسنون کی بجائے غائبانہ نمازِ جنازہ اور وہ بھی شہید کا … اس فعل کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ جواب: راجح مسلک کے مطابق ’’شہید فی المعرکہ‘‘ کی نمازِ جنازہ نہیں۔ پھر اس مہم جوئی کا رکشوں وغیرہ پر اعلان کرنا جاہلی رُسوم کا حصہ ہے۔ اس بُری رسم سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
Flag Counter