Maktaba Wahhabi

97 - 829
عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ’’قرء‘‘ کے معنی حیض اور طُہر دونوں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیتِ قرآنی میں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت أبی حبیش سے فرمایاتھا کہ((دَعِی الصَّلٰوۃَ أیَّامَ أَقرَائِکِ))[1] یعنی ’’ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔‘‘ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!الشرح الممتع علی زاد المستقنع (۱۰؍ ۶۶۱)اور نیل الأوطار (۶؍۳۰۸) سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۸ میں ’’قروء‘‘ (قرء) سے مراد حیض ہے یا طہر؟ سوال: سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۸ میں ’’قروء‘‘ (قرء) سے مراد حیض ہے یا طہر؟ (حنفیہ وحنابلہ کے نزدیک نیز مالکیہ کے نزدیک بھی قابلِ ترجیح قول یہی ہے کہ یہاں قرء سے مراد حیض ہے اور خلفائے راشدین وحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی اسی کے قائل ہیں۔) جواب: اس بارے میں سلف کا اختلاف ہے کہ یہاں ’’قرء‘‘ سے مراد حیض ہے یا طہر۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ’’قرء‘‘ بمعنی طُہر ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے جب کہ دوسری طرف خلفائے اربعہ اور کثیر تعداد صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا یہ قول ہے کہ ’’قرء‘‘ سے مراد حیض ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اکابر صحابہ اس کے قائل ہیں کہ ’’قرء‘‘ بمعنی حیض ہے۔ لغوی طور پر لفظ ’’قرء‘‘ مشترک المعنی ہے اور علمائے لسان عرب اور فقہائے عظام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ’’قرء‘‘ کے معنی حیض اور طُہر دونوں ہیں۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ آیتِ قرآنی میں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت أبی حبیش سے فرمایاتھا کہ((دَعِی الصَّلٰوۃَ أیَّامَ أَقرَائِکِ))[2] یعنی ’’ایامِ حیض میں نماز ترک کردیا کرو۔‘‘ اس سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ یہاں ’’قرؤ‘‘ سے مراد حیض ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!الشرح الممتع علی زاد المستقنع (۱۰؍ ۶۶۱)اور نیل الأوطار (۶؍۳۰۸) کیا حیض ختم ہوجانے کے باوجودغسل کرنے تک عدت برقرار رہتی ہے؟ سوال: کیا خون حیض بند ہونے کے بعد جب تک عورت غسل نہ کرلے، عدت پوری نہیں ہوتی اور خاوند کو
Flag Counter