Maktaba Wahhabi

112 - 614
(فَسَمِعتُہٗ یَقُولُ : اللّٰہُمَّ اِنَّ فُلَانَ بنَ فُلَانٍ فِی ذِمَّتِکَ…)الخ [1] ”میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرما رہے تھے:اے اللہ! فلاں بن فلاں تیرے ذمے ہے…‘‘ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی سماع کی تصریح ہے، جس میں مذکور ہے کہ آپ نے دعا کرتے ہوئے فرمایا: ’’ (اللّٰہُمَّ أَنتَ رَبُّہَا…) الخ‘‘[2] علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: (جَمِیعُ ذٰلِکَ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ جَہَرَ بِالدُّعَائِ، وَ ہُوَ خِلَافُ مَا صَرَّحَ بِہٖ کجَمَاعَۃ مِن استِحبَابِ الاِسرَارِ بِالدُّعَائِ ۔ وَ قَد قِیلَ : اِن جَھرَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَِالدُّعَائِ لِقَصدِ تعَلِیمِھِم۔ قَالَ: وَالظَّاھِرُ اَنَّ الجَھرَ، وَالاِسرَارَ بِالدُّعَائِ جَائِزَانِ، اِنتَھٰی )[3] مندرجہ بالا روایات میں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہری جنازہ پڑھانے کا تذکرہ ہے، کیونکہ سماع بلا جہر ناممکن ہے۔ جنازہ سری پڑھانا جائز ہے؟ سوال۔جنازہ سرّی پڑھانا جائز ہے؟(ولی اللہ رحمانی دوست پورہ کھڈیاں خاص ضلع قصور) (9ستمبر1994ء) جواب۔سرّی جنازہ درست ہے۔ نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد ’’سورۃ فاتحہ‘‘ آہستہ پڑھی جائے۔[4]بلکہ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں جمہور کا مسلک سری نقل کیا ہے۔(4/66) نمازِ جنازہ بلند آواز سے پڑھی جائے یا آہستہ؟ سوال۔ کیا نمازِ جنازہ اونچی آواز سے پڑھنی چاہیے یا آہستہ ؟ اگر دونوں طرح جائز ہے تو افضل کونسا عمل ہے۔ (زاہد لطیف، باغبانپورہ لاہور) (26 جنوری 1996ء) جواب۔ اصل یہ ہے کہ نمازِ جنازہ سرّی پڑھی جائے جہر کا محض جواز ہے۔ نمازِ جنازہ میں تذکیر و تانیث کے لحاظ سے صیغوں میں تبدیلی سوال۔ نمازِ جنازہ میں پڑھی جانے والی دعاؤں کے صیغے مذکر، مونث کے لحاظ سے تبدیل کرکے پڑھنے کا جواز ہے؟ (عبدالرزاق، اختر، محمدی پینٹرز،رحیم یار خان) (2 اگست 1996ء)
Flag Counter