Maktaba Wahhabi

126 - 614
میں اختلاف ہے۔ جمہور علماء کا کہنا ہے اگر پیدائش کے بعد زندگی کی علامتیں ظاہر ہو جائیں تو اس صورت میں اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ورنہ نہیں۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے’’نیل الاوطار‘‘ میں اسی مذہب کو ترجیح دی ہے اور شیخی المکرم محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فتاویٰ اہل حدیث میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔اس بارے میں وارد جملہ احادیث ضعیف ہیں۔ تاہم ان کے طرق کو جمع کرکے استناد لینے کی سعی کی گئی ہے۔ اہل علم کا دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ بچے میں جب روح پھونکی جا چکی ہو اور وہ مردہ پیدا ہو۔اس کے باوجود اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے اس مسلک کو امام احمد اور اسحاق بن راہویہ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب المنتقٰی نے اختیار کیا ہے۔ محقق العصر شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ بھی تعلیقات فتح الباری میں اسی بات کے قائل ہیں۔ محقق اور مؤید بالدلائل یہی مسلک معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : وَالسِّقْطُ یُصَلَّی عَلَیْہِ، وَیُدْعَی لِوَالِدَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ ) [1] ”یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کچا بچہ جو پورے دنوں سے پہلے گر جائے اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے اور اس کے والدین کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کی جائے ۔‘‘ شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے جب کہ علامہ البانی نے ’’ارواء الغلیل‘‘ میں اس پر صحت کا حکم لگایا ہے۔ اور امام ترمذی فرماتے ہیں: (حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ ) اور ’’حاکم‘‘ کا کہنا ہے:(َ حِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِیِّ) اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کی میت ہے دیگر مسلمانوں کی طرح اس کی نمازِ جنازہ بھی مشروع ہونی چاہیے۔ تفریق کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی۔ یہ بھی یاد رہے کہ بچے کے کان میں اذان کا دیاجانا جنازہ کے لیے شرط نہیں ہے۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) چار ماہ بعد حمل ساقط ہو جائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے؟ سوال۔ چار ماہ پوے ہونے کے بعد اگر حمل ساقط ہو جائے تو کیا اس کی نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے؟ کیونکہ چار ماہ پورے ہونے کے بعد روح ڈال دی جاتی ہے۔ (شیخ عبداللہ۔ سنت نگر، لاہور) (17مئی 2002ء) جواب۔ مسئلہ ہذا میں اختلاف ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ ایسی صورت میں نمازِ جنازہ پڑھنی چاہیے چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ میں
Flag Counter