Maktaba Wahhabi

148 - 614
”میری قبر بغلی بنانا اور اس پر کچی اینٹیں لگانا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کچی اینٹیں لگائی گئی تھیں۔‘‘ شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَ قَدْ نقلوا اَن عدد لبناتہ صلی اللّٰهَ علیہ وسلم تسع) ”اہل علم نے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی( قبر مبارک کی) کچی اینٹوں کی تعداد نو(9) تھی۔‘‘ اللبن کی وضاحت اہل علم نے یوں بیان کی ہے: (اَ لمَضروب منَ الطِّیْنِ مُربِعًا لِلْبِنَائِ قَبْل الطَّبخ فَاِذَا طُبِخَ فَہُوَ الْاَجُرُّ) [1]’’مربع شکل میں پکنے سے پہلے عمارتی اینٹ کا نام ’’اللبن‘‘ ہے اور جب پک جائے تو وہ الآجر سے موسوم ہے۔ مختصر الخرقی میں ہے:(وَلَا یُدْخِلُ الْقَبْرَ آجُرًّا و لا خَشباً و لا شَیْئًا مَسَّتْہُ النَّارُ) [2] ”قبر میں پکی اینٹ اور لکڑی استعمال نہ کی جائے اور ہر وہ شے جس کو آگ لگی ہو۔‘‘ فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں کچی اینٹ اور کانے کا استعمال مستحب ہے جب کہ امام احمد نے لکڑی کو مکروہ کہا ہے۔ ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ سلف صالحین کچی اینٹ کو مستحب کہتے اور لکڑی کے استعمال کو مکروہ سمجھتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبر کو بند کرنے کے لیے اصل کچی اینٹ ہے۔ عامۃ الناس میں آج کل جو سلیں لگانے کا رواج ہے یہ غیر درست فعل ہے ،اس سے احترازہونا چاہیے۔ قبریں پختہ کرنا اور ان پر نام آویزاں کرنا سوال۔ قبروں پر جو نام لکھے جاتے ہیں، یا انھیں پختہ کیا جاتا ہے ، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ اگر نام لکھنا ناجائز ہے تو اس پر کیا نشانی رکھنی چاہیے؟ (محمد بلال کمبوہ آف کچا پکا) ( 16 فروری 2001ء) جواب۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: ( نَہَی رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنْ یُجَصَّصَ الْقَبْرُ وَأَنْ یُقْعَدَ عَلَیْہِ وَأَنْ یُبْنَی عَلَیْہِ) [3] ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے، اس پر بیٹھنے ، عمارت بنانے اورزائد مٹی ڈالنے اور اس پر کچھ لکھنے سے منع فرمایا۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ قبروں پر لکھنا اور انھیں پختہ بنانا ناجائز ہے ۔ امام محمد’’الآثار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’قبر پر لکھنا یا کتبہ لگانا مکروہ ہے۔‘‘ ہاں البتہ نشانی رکھنی جائز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبرپر پتھر رکھتے ہوئے فرمایا کہ:’’اس سے
Flag Counter