Maktaba Wahhabi

150 - 614
کے عہد کو پایا ہے لیکن کسی سے روایت نہیں۔ احتمال ہے کہ ابتدائی امر میں قبرکوہان کی صورت میں ہو۔ پھر انھوں نے قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے ’’سنن ابی داؤد‘‘ اور ’’حاکم‘‘ میں مروی قصہ سے تائید لی ہے اور دیگر شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (ثُمَّ الِاخْتِلَافُ فِی ذَلِکَ فِی أَیِّہِمَا أَفْضَلُ لَا فِی أَصْلِ الْجَوَازِ ) ”یعنی کوہان نما قبر یا سطح برابر کی قبر بنانا دونوں طرح جائز ہے۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ دونوں صورتوں میں سے بہتر کونسی ہے۔‘‘ مزنی اور ابن قدامہ نے کوہان نما کو ترجیح دی ہے۔ لیکن ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سطح برابر قبر فضالہ بن عبید کی حدیث جو’’صحیح مسلم‘‘میں ہے، کی بناء پر قابلِ ترجیح ہے: (أَنَّہُ أَمَرَ بِقَبْرٍ فَسُوِّیَ ثُمَّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَأْمُرُ بِتَسْوِیَتِہَا) [1] قبروں کو پختہ کرنے کی شرعی حیثیت سوال۔ہمارے ہاں اکثر لوگ قبروں کو پختہ کرتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟ (محمد یوسف۔ضلع ایبٹ آباد) (9جولائی 1999) جواب۔ قبروںکو پختہ بنانا منع ہے۔’’صحیح مسلم‘‘میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ قبر کو پکا کیا جائے اور اس پر مجاور بن کر بیٹھا جائے اور اس پر عمارت (قبّہ وغیرہ) بنائی جائے۔‘‘[2] اور ترمذی (ابواب الجنائز باب ما جاء فی کراھیۃ تجصیص القبور) میں بسند صحیح یہ اضافہ ہے کہ ’’اس پر کچھ لکھنا بھی منع ہے۔‘‘[3] میت پختہ قبر بنانے کی وصیت کرے تو کیا حکم ہے؟ سوال۔کیا پختہ قبر بنوائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی شخص مرنے سے پہلے وصیت کر گیا ہو کہ اس کی قبر پختہ بنوائی جائے تو کیا اس کی اس وصیت کو پورا کرنا اس کے ورثاء کا فرض ہے؟ (آصف احسان ملک ستیانہ روڈ۔ فیصل آباد۔ 11 اپریل 1997) جواب۔’’صحیح مسلم‘‘ وغیرہ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں تصریح موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ
Flag Counter