Maktaba Wahhabi

151 - 614
قبر کو چونا گچ کیا جائے۔[1] امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی کراہت کی تصریح کی ہے چنانچہ کتاب ’’الآثار‘‘ میں لکھتے ہیں، ہمارے نزدیک قبر کو چونا گچ کرنا یا مٹی سے لپائی کرنا مکروہ ہے۔ خلافِ شرع وصیت کی اصلاح ورثاء کے ذمہ ضروری ہے بصورتِ دیگر وہ بھی مجرم ٹھہریں گے۔ جن قبروں کی پوجا پاٹ کا خطرہ ہو انھیں مسمار کرنے کا شریعت میں کیا حکم ہے ؟ سوال۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ہمارے آباؤ اجداد کی قبریں ہم نے اپنے گھر میں بنوائی تھیں اور لوگ اب ان کی پوجا و پرستش کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی دفعہ ہمارا لوگوں سے جھگڑا بھی ہو چکا ہے۔ اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان قبروں کا یہاں سے نام و نشان ہی مٹا دیا جائے تاکہ شرک کا خطرہ باقی نہ رہے۔ کیا شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسا کرنا جائز ہے ؟ جواب۔توحید و سنت کے احیاء کی خاطر اور جذبۂ ایمانی کے تقاضوں کے مطابق آپ لوگوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنی جدی پشتی قبروں کو زمینی سطح کے ہموار کردیں تاکہ کسی بھی قبر پرست اور غیر اللہ کے پجاری کی نگاہ ان کی طرف اٹھنے نہ پائے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہے: ابو الہیاج اسدی کا بیان ہے، مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تجھے اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا تھا؟ 1۔ جو تصویر نظر آئے اسے مٹا کر دم لو۔ 2۔ ہر وہ قبر جو بلند ہو اسے زمین کے برابر کردو۔[2] اسی طرح دوسری حدیث میں ہے ، ثمامہ بن شفی کہتے ہیں کہ ہم فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرزمین روم میں سفر کررہے تھے کہ رَوْدَسْ کے مقام پر ہمارا ایک ساتھی فوت ہو گیا۔ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق اس کی قبر زمین کے برابر کردی گئی۔ پھر فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔[3] اسی طرح کتب تاریخ و سیر میں یہ قصہ معروف ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب تُستر میں ہرمز کے مخزن سے دانیال علیہ السلام کی لاش برآمد ہوئی تو مختلف مقامات پر تیرہ قبریں کھود کر ان کو دفن کرکے رات کی تاریکی میں مٹی
Flag Counter