Maktaba Wahhabi

205 - 614
کہ اس حدیث کے بعض دیگر طرق قابلِ اعتماد بھی ہیں۔ بہر صورت روایت ِ ہذا کی صلاحیت کے باوجود قائلین جواز نے اس کے مختلف جوابات دیے ہیں۔ ممانعت پہلے تھی بعد میں حدیث کے عموم فَزُوْرُوْہَا کی بناء پر مرد و زن سب کو اجازت مل گئی یا ممانعت صرف ان عورتوں کے لیے ہے جو وہاں جا کر جزع و فزع کا اظہار کریں۔ اس حدیث کے بعض طرق میں لفظ زَوَّارَاتِ الْقُبُوْربھی وارد ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عورتوں کے لیے قبروں کی زیارتِ کثرت ممنوع ہے۔ وقتاً فوقتاً جائز ہے جس طرح کہ صحیح روایات میں جواز کی تصریح موجود ہے۔ مسئلہ ہذا کی تفصیل ’’الاعتصام‘‘ میں عرصہ قبل شائع ہو چکی ہے۔ کیا عورت قبرستان میں جا سکتی ہے؟ سوال۔ کیا عورت قبرستان میں جا سکتی ہے ؟ جواب۔عورت قبرستان جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ جزع و فزع کا اظہار نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو قبر کے پاس بیٹھی دیکھا کہ رو رہی تھی، فرمایا: (اِتَّقِی اللّٰہَ وَاصْبِرِیْ)[1] ’’اللہ سے ڈر اور صبر کر۔‘‘ زیارتِ قبور کے شرعی احکامات کیا ہیں ؟ کیا والدین کی قبروں کی زیارت کرنی چاہیے یا نہیں؟ سوال۔قبور پر جانے کے متعلق جو احکامات ِ شرعی ہیں وہ کیا ہیں کیا کبھی اپنے والدین کی قبور پر جانا چاہیے کہ نہیں اگر جانا چاہیے تو کیا کرنا چاہیے؟ عام قبرستان سے گزرتے ہوئے کیا کرناچاہیے؟ میرے علم کے مطابق عورتوں کا قبور پر جانا منع ہے اہل بدعت یہ تاویل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند اور اپنے والد کے روضۂ مبارک پر جاتی تھیں اس مسئلہ کے متعلق ارشاد فرمائیں۔ ( خادم، قمر آصف شاہ) (19 مارچ 1993ء) جواب۔ قبروں کی زیارت کرنا مشروع ہے۔ اس سے آخرت یاد آتی ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے۔ بعض روایات میں موجود ہے کہ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا مگر اب زیارت کرو کیونکہ اس سے موت یاد آتی ہے اور باعث عبرت بھی ہے۔ [2] شریعت میں مسلمانوں کی قبروں کی زیارت کا چونکہ عمومی اِذن موجود ہے اس میں والدین بھی شامل ہیں لہٰذا ان کی قبروں پر جا کر بھی دعائِ رحمت و استغفار ہونی چاہیے بشرطیکہ وہ اہل توحید ہوں ورنہ نہیں۔ نیز راجح مسلک کے مطابق
Flag Counter