Maktaba Wahhabi

207 - 614
جواب۔ اصلاً عورت کے قبرستان جانے کی اجازت کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس کی اجازت ہے۔ بشرطیکہ وہاں جزع فزع کا اظہار نہ کرے اور کثرت سے نہ جائے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ سے ڈرنے اور صبر کرنے کی تلقین کی۔ [1] اگر عورت کے لیے یہاں آنا ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو روک دیتے۔ نہ روکنا جواز ہی کی دلیل ہے۔ نیز’’صحیح مسلم‘‘میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب قبرستان میں جاؤں تو کون سی دعاء پڑھوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی تعلیم دی۔ [2] اس میں بھی جانے کے جواز کی دلیل ہے، حائضہ اور طاہرہ کا کوئی فرق نہیں۔ کیا قبروں والے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم)…الخ ‘سنتے ہیں؟ سوال۔ کیا قبروں والے سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے اور جواب نہیں دیتے تو ہم (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقَبُوْرِ) کیوں کہتے ہیں؟ ’’علیکم‘‘ اور ’’یا‘‘ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ (سائل) (12 اپریل 2002ء) جواب۔ واضح ہو کہ خطاب کی کئی صورتیں ہوتی ہیں: کبھی پاس موجود شخص کو اشارۃً مسئلہ بتلانا مقصود ہوتا ہے جیسے حضرت عائشہ نے اپنے فوت شدہ بھائی کو خطاب کرکے کہا کہ’’میں تمھارے پاس ہوتی تو تم وہیں دفن ہوتے اور میں تمہاری زیارت کو نہ آتی۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حجر ِ اسود سے خطاب کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔ کبھی توکل کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے چاند اور زمین کی دعائیں ہیں۔ کبھی حکایت (بیان) کی حالت کو قائم رکھنے کے لیے خطاب کرتے ہیں۔ جیسے ’’التحیات ‘‘میں حکایت کے طور پر اور معراج کی یادگار کو قائم رکھنے کے لیے( السَّلامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ)کہتے ہیں۔ مردوں کو مخاطب کرکے قبرستان میں سلام کہنا بھی اسی قسم سے ہے کیونکہ قبرستان دیکھنے سے ان کی زندگی کے دن یاد آجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ سامنے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے بھائی کو مخاطب کرنا اس قسم سے بھی ہو سکتا ہے اسی طرح جب میت سامنے ہو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: (بِأَبِی أَنْتَ یَا نَبِیَّ اللَّہِ، لاَ یَجْمَعُ اللّٰهُ عَلَیْکَ مَوْتَتَیْنِ)[3]
Flag Counter