Maktaba Wahhabi

208 - 614
”میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔‘‘ اس سے حضرت عمر وغیرہ کی ترددید کرنا مقصود تھا جن کا خیال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر فوت ہو بھی گئے ہوں تو پھر زندہ ہو کر فتوحات کریں گے۔ کبھی مشرکوں کے اعتقاد کے لحاظ سے اس چیز کو عاقل کے قائم مقام قرار دے کر خطاب کرتے ہیں، جس سے مقصود توحید کا اظہار اور اثبات ہوتاہے۔ جیسے چاند وغیرہ کے خطاب میں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حجر ِ اسود سے خطاب کرنا بھی ممکن ہے، اس قسم میں داخل ہو۔[1] مسئلہ ہذا کی تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو ،کتاب’’سماع موتیٰ‘‘ لشیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ۔ کیا قبروں والے’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْر…‘سنتے ہیں؟ سوال۔کیا قبروں والے (اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ…) سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے تو (عَلَیْکُمْ)اور (یَا اَھْلَ…) کا کیا مطلب ہو گا؟ اور حدیث میں ہے کہ مدفون اپنے دفنانے والوں کے قدموں کی آواز سنتا ہے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ (ظفر اقبال۔وزیرآباد) (5 جولائی 2002ء) جواب۔ اہل قبور کو سلام کہنا ایک شرعی حکم ہے جس کی تعمیل ضروری ہے۔ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے کہ جو بات خلافِ قیاس ہو وہ اپنے مورد میں ہی بند رہتی ہے۔ یعنی جس موقع و محل کے لیے وارد ہوئی ہے اس کے سوا دوسرے موقع و محل میں جاری نہیں کی جائے گی۔مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کوئی معجزہ ظاہر ہو تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ اب نبی کو کلی اختیار ہے ،جس وقت چاہے کوئی بات ظاہر کرلے بلکہ جس وقت جو بات اللہ نے نبی کے ہاتھ پر اس قسم کی ظاہر کی وہ اسی محل میں سمجھی جائے گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جو شخص گہری نیند سو جائے وہ نہیں سنتاحالانکہ اس میں روح موجود ہوتی ہے۔ تو پھر مردہ کس طرح سن سکتا ہے ؟ اگر مان لیا جائے کہ روح کو بدن کے ساتھ کچھ تعلق رہتا ہے تو بھی مردے کا سماع خلافِ قیاس ہے جس طرح کہ سوال میں مذکور حدیث میں ہے۔ اس حدیث پر عام قیاس کرنا ممنوع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خطاب کی کئی صورتیں اور وجوہ ہوتی ہیں۔ کبھی تو خطاب کرکے پاس والے کو اشارۃً مسئلہ بتلانا مقصود ہوتاہے۔ جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متوفی بھائی کو مخاطب کرکے کہا کہ میں تمہارے پاس ہوتی تو تم وہیں دفن ہوتے اور میں تمہاری زیارت کو نہ آتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حجر ِ اسود کو خطاب کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔ [2] کبھی توکل کا اظہار مقصود ہوتا ہے جیسے چاند اور زمین کی دعائیں ہیں۔ کبھی حکایت کی حالت کی یاد گار قائم رکھنے
Flag Counter