Maktaba Wahhabi

222 - 614
جواب۔ وفات کے تیسرے دن اور پھر ہر جمعرات کو ختم اور اخیر میں رسمِ چہلم کے انعقاد کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں۔ بلکہ عیار لوگوں نے کھانے پینے کا ڈھب بنا رکھا ہے۔ ہندوؤں کی پیروی میں یہ رسومات ایجاد ہوئی ہیں۔ منوسمرتی میں ان رسموں کا ذکر ملتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [1] ”یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ جب ان مجالس کا منعقد کرنا خلافِ شرع ہے تو ان میں شرکت کرنا بھی ناجائز ہے۔ مروّجہ معاشرتی رسموں کی شرعی حیثیت سوال۔ کیا شریعت میں گیارہویں اور رسم چالیسواں یا اس قسم کی دوسری رسموں کا ذکر آیا ہے ؟ اگر نہیں تو یہ ہمارے اسلامی نظام کا حصہ کیسے ہیں؟ جواب۔ مذکورہ رسمیں بدعت ہیں، ان سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: (مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [2] ”یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ کیا چالیسویں، تیجے کی حدیث صحیح ہے ؟ سوال۔کتاب’’جاء الحق‘‘ کے مصنف مفتی احمد یار نعیمی نے (ص:262) فاتحہ کے ثبوت میں فاتحہ، تیجے، دسویں، چالیسویں کے باب میں حدیث ذکر کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امیر حمزہ کے لیے تیسرے اور ساتویں اور چالیسویں دن اور چھٹے ماہ اور سال بھر کے بعد صدقہ دیا یہ تیجہ ششماہی اور برسی کی اصل ہے۔ بحوالہ’’انوار ساطعہ‘‘ (ص:145) اور حاشیہ خَزانۃ الروایات میں ہے یہ کتابیں کس مصنف کی ہیں یہ کون ہے اور کس صدی کا ہے ؟ اور یہ کتابیں کس پائے کی ہیں۔ بالتفصیل وضاحت سے آگاہ فرمائیں۔ (محمد اسماعیل خان ذبیح اٹھیل پوری ) (26 اپریل 2002ء) جواب۔ مذکور روایت موضوع من گھڑت اور جن کتابوں کا حوالہ دیا گیا وہ قابل استناد نہیں اور معروف ذخیرہ حدیث میں اس کا کوئی نام و نشان نہیں اور اگر کوئی اس کی صحت کا دعویدار ہے تو اس کے ذمے ہے کہ محدثین کے اصول کے مطابق اس کو صحیح ثابت کرے ورنہ اس کی حیثیت تارِ عنکبوت سے بھی کم تر ہے جو قابلِ التفات نہیں۔
Flag Counter