Maktaba Wahhabi

236 - 614
”یعنی حاملہ اور مرضعہ کے لیے بلا اختلاف روزہ افطار کرناجائز ہے جب کہ دودھ پیتے بچہ اور پیٹ میں بچہ کو تکلیف کا اندیشہ ہو۔‘‘ اور آیت کریمہ {وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ} (البقرۃ:184)کے معنی(یُطَوِّقُوْنَہُ)کے کیے جائیں یعنی جن کے لیے روزہ رکھنا گلے کا طوق او رمصیبت ہے تو اس صورت میں یہ آیت مرضعہ اور حاملہ کو بھی شامل ہوگی۔ سفر میں روزہ نہ رکھنا کیسا ہے ؟ سوال۔ایک آدمی بسلسلہ ملازمت روزانہ 70میل کا سفر کرتا ہے اور وہ رمضان کے روزے نہیں رکھتا۔ چھٹی کے روز روزہ رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ا ور جو روزے اُس نے نہیں رکھے اور چھٹی کے روز روزہ رکھ کر وہ پورے کر رہا ہے کیا اس کا ایسا کرنا ازروئے کتاب و سنت درست ہے یا نہیں؟(سائل عبدالرشید عراقی) (17جولائی 1998ء) جواب۔سفر میں روزہ نہ رکھنے کا صرف جواز ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: (فَالْحَاصِلُ أَنَّ الصَّوْمَ لِمَنْ قَوِیَ عَلَیْہِ أَفْضَلُ مِنَ الْفِطْرِ وَالْفِطْرُ لِمَنْ شَقَّ عَلَیْہِ الصَّوْمُ أَوْ أَعْرَضَ عَنْ قُبُولِ الرُّخْصَۃِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ وَأَنَّ مَنْ لَمْ یَتَحَقَّقِ الْمَشَقَّۃَ یُخَیَّرُ بَیْنَ الصَّوْمِ وَالْفِطْرِ) [1] ”جملہ دلائل کا حاصل یہ ہے کہ بحالت ِ سفر جس میں روزہ کی طاقت ہو اس کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے۔ اور جسے تکلیف ہو یا رخصت قبول کرنے سے منہ پھیرے اسے افطار کرنا چاہیے اور عدمِ تکلیف کی صورت میں دونوں طرح اختیار ہے۔ ‘‘ موصوف کا موقف درست نہیں۔ بحالت ِ سفر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روزہ رکھنا ثابت ہے۔ فرمایا: ( وَمَا فِینَا صَائِمٌ إِلَّا مَا کَانَ مِنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَابْنِ رَوَاحَۃَ) [2] (کُنَّا نُسَافِرُ مَعَ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَلَمْ یَعِبِ الصَّائِمُ عَلَی المُفْطِرِ، وَلاَ المُفْطِرُ عَلَی الصَّائِمِ) [3] کیا ستر سالہ بوڑھے کو روزے معاف ہیں؟ سوال۔ ایک آدمی کی عمر70 سال ہے بیماربھی رہتا ہے مگر چلتا پھرتا ہے اس نے اس سال روزے بھی نہیں رکھے اور نہ
Flag Counter