Maktaba Wahhabi

322 - 614
کہا :(وَاللّٰہِ مَا اِیَّاکَ اَرَدْتُ) ’’میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْد وَ لَکَ مَا اَخَذْتَ یَا مَعْنُ) [1] ” اے یزید تیرے لیے وہ کچھ ہے جو تو نے نیت کی یعنی تیرا صدقہ قبول ہے۔ اور اے معن تیرے لیے وہ کچھ ہے جو (محتاجگی کی صورت میں) تو نے لیا ہے، نماز کی غفلت دور کرنے کے لیے مسلسل اسے وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ (2) جب غربت کی صورت میں محتاج بیٹے کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے تو فقر کی صورت میں داماد کو بطریق ِ اولیٰ دینی جائز ہے کیوں کہ وہ اصلاً اجنبی ہے۔ ان قرابت داروں سے نہیں جن کا خرچہ بذمہ سسر ہو بلکہ لڑکی کی شادی کی صورت میں باپ کے ذمہ اس کا خرچہ بھی نہیں رہا۔ اب کلی طور پر لڑکی کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے۔ دعوتی سرگرمیوں کے لیے مالِ زکوٰۃ کا استعمال؟ سوال۔کیا امریکہ کے اسلامک سنٹرز کو زکوٰۃ دینا جائز ہے ؟ تاکہ وہ اپنے قرض ادا کرسکیں جو زمین کی خریداری، تعمیرات ، یا کسی عمارت میں ضروری توسیع کی وجہ سے ان کے ذمہ ہیں، یا دوسرے قرض یا اُدھار چیزیں لینے کی وجہ سے یا سنٹر کے ضروری اخراجات پورے کرنے کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں، خواہ یہ(اخراجات) تنخواہوں کی صورت میں ہوں، یا ٹیکسوں کی ادائیگی کی صورت میں ، یا مرمت وغیرہ کے لیے یا اسلامی پروگراموں کو جاری رکھنے کے لیے ان کی ضرورت پڑتی ہو؟ (مغربی مسلمانوں کے روزمرہ مسائل) جواب۔اس سوال کے جواب میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف میں( فی سبیل اللہ) کا مقصود متعین کرنے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ٭ متقدمین میں سے اکثر علماء ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو جہاد اور اس سے متعلق مصارف تک ہی محدود قراردیتے ہیں۔ وہ اس میں مجاہدین کے علاوہ کسی اور کو شامل نہیں کرتے۔ کیونکہ جب یہ لفظ مطلق ہو تو اس سے مراد’’جہاد‘‘ ہی ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس مصرف(فی سبیل اللہ) کے مفہوم کو عام کردیا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ باقی مصارف کالعدم ہو جائیں گے، یا ان کا الگ سے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ٭ متاخرین میں سے بہت سے علماء اس کو وسیع معنوں میں لیتے ہیں، اور اس میں عوامی بہبود کے تمام کاموں کو شامل کرتے ہیں۔
Flag Counter