Maktaba Wahhabi

342 - 614
مسجد عائشہ سے کثرت سے عمرے کرنے کا کیا حکم ہے؟ سوال۔ایک عمرے اور دوسرے عمرے کے درمیان کتنے عرصے کا فرق ہونا چاہیے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض حضرات روزانہ ہی مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرہ کر لیتے ہیں۔ بعض دو تین دن بعد اور اسی طرح مختلف عرصہ بعد۔ مسنون طریقہ کی وضاحت فرمادیں۔ (شیخ محمد فاروق۔ پشاور) (25 فروری 2000ء) جواب۔ بلاریب صحیح حدیث میں تعدّدِ (کثرت) عمرہ کی ترغیب وارد ہے۔ ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی کوتاہیوں کے لیے کفارہ ہے۔ اور حجِ مبرور( مقبول حج) کی جزاء صرف بہشت ہے۔ بذاتِ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں چند ہی عمرے کیے اور صحابہ کرام و ائمہ سنت سے بھی چند ہی ثابت ہیں۔ دو عمروں کے درمیان وقفے کی کسی حدیث میں اگرچہ تصریح نہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور ائمہ سلف کے معمولات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بکثرت عمرے نہیں کرتے تھے۔ اور مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا سے روزانہ یا ایک دن میں کئی دفعہ عمرے کرنے کا جو بعض لوگوں نے معمول بنا رکھا ہے، سنت سے قطعاً ثابت نہیں۔ اگر یہاں سے احرام باندھنے کی کوئی اہمیت ہوتی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین یقینا اس کے زیادہ حق دار تھے۔ لیکن ان سے ثابت نہیں کہ وہ وقفے وقفے بعد مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرے کرتے ہوں، نہ روزانہ اور نہ دو تین دن بعد، نہ ہفتوں ، مہینوں اور نہ برسوں بعد ، اس عادت کو بدلنا ضروری ہے ورنہ سنت میں دخل اندازی سمجھی جائے گی جو مقامِ خطر ہے۔ ہاں زندگی میں جب کوئی شخص عمرہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو مواقیت یا حل وغیرہ سے احرام باندھ کر عمرے کے لیے جا سکتا ہے جو باعث اجر و ثواب ہے۔ عمرہ اور صلح حدیبیہ کے متعلق اہم سوال سوال۔صلح حدیبیہ میں حضور اور صحابہ بغرض عمرہ گئے تھے۔ معتمر(عمرہ کرنے والے) کے لیے تو قربانی لازم نہیں ہے اور اپنے ساتھ لے جانے کا سوال ہے کہ حضور اور صحابہ کیوں لے کر گئے اور روک دیے جانے کے بعد حدیبیہ میں ہی قربانی کردی گئی۔ (فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ) (البقرۃ: 196) کا کیا مطلب ہے ؟ کیا حضور کو اور صحابہ کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ تم روک دیے جاؤ گے اور تمہارے لیے اس وقت قربانی کرنا ضروری ہے ؟ لہٰذا ساتھ لیتے جاؤ۔ اگر پہلے سے روک دیے جانے کا علم نہ ہو تو اچانک قربانی کہاں سے لائے گا؟ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔ جواب۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے دل و دماغ میں وہ اذیت ناک منظر ہو جس کا مسلمانوں کو کفار کی طرف سے اس وقت سامنا تھا۔ اس زمانے میں مسلمان تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کبھی دوبارہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بحالتِ خواب چونکہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امید کی کرن دکھائی تھی جس کی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں شوق ِ زیارت کا اضافہ ہوا۔
Flag Counter