Maktaba Wahhabi

371 - 614
اونٹ کی قربانی میں کتنے حصے ہیں؟ (بریلوی مکتب ِ فکر کے فتوے پر تعاقب) سوال۔کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ’’اونٹ کی قربانی میں دس حصے دار شریک ہو سکتے ہیں یا نہیں؟‘‘ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ لاہور کے ایک ’’محمد حسین صاحب‘‘ کے اسی سوال پر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور نے بھی ایک فتویٰ صادر فرمایا ہے وہ بھی اس استفسار کے ساتھ لف ہے۔(سائل: قاری محمد حیات ربانی) جامعہ نظامیہ رضویہ کا فتویٰ: بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم: جواب۔ مسؤلہ صورت میں اونٹ کی قربانی میں 10حصہ دار شریک نہیں ہو سکتے۔ کہ صحیح حدیثوں میں گائے اور اونٹ میں سات حصے متعین ہیں، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: (أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْبَقَرَۃُ عَنْ سَبْعَۃٍ، وَالْجَزُورُ عَنْ سَبْعَۃٍ) [1] ”یعنی گائے سات کی طرف سے اور اونٹ سات کی طرف سے۔‘‘ اور چودہ سو سالہ جمہور مسلمانوں کا عمل ہے اور اس عمل پر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور آئمہ مجتہدین و فقہاء ِ کرام سب کا یہی عمل رہا کہ اونٹ میں سات حصہ ہیں۔ تاہم غیر مقلد فرقہ جو چند سالوں سے نوپید ہے اور جمہور مسلمانوں کا بدخواہ ہے، نے غریب روایات سے استدلال کیا کہ دس حصے ہو سکتے ہیں۔ حالانکہ ان کا یہ استدلال غلط ہے کہ غریب روایت سے حکم ثابت نہیں ہوتا، ترمذی شریف میں دس حصے والی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا : (ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ، بَابُ الْأُضْحِیَۃ) لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ چودہ سو سالہ جاری عمل کو اختیار کریں اور گمراہ فرقوں کے فتنہ سے اپنے کو محفوظ رکھیں۔ (وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ )۔ (نائب مفتی، جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور) جواب۔از حضرت شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان صاحب مدنی۔ الاعتصام) اونٹ کی قربانی میں دس حصے دار شریک ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ (کُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ فَحَضَرَ الأَضْحَی فَاشْتَرَکْنَا فِی البَقَرَۃِ سَبْعَۃً، وَفِی البَعِیرِ عَشَرَۃً) [2] ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے، عید الاضحیٰ کا وقت آگیاتو ہم ایک گائے میں سات اور ایک اونٹ میں دس شریک ہوئے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ ’’تعلیق مشکوٰۃ‘‘ (1/462) میں فرماتے ہیں:
Flag Counter