Maktaba Wahhabi

388 - 614
کیا صحیح میں مدلسین کی روایات قابلِ حجت نہیں ہیں؟[1] (1) تعاقب از حضرت مولانا ابوالاشبال احمد شاغف، مکہ مکرمہ محترم جناب حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! 25 مئی کے ’’الاعتصام‘‘ میں حدیث(لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃ…الخ)پر اعتراض اور اس کا جواب پڑھا۔ یہ ایک علمی بحث ہے جو تحقیق کی متقاضی ہے۔ تقلید اور محض جذبات سے اسے حل کرنا جہالت نہیں تو نادانی ضرور ہے۔ صحیحین پر اعتراضات کا سلسلہ قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ ابو الحسن الدارقطنی وغیرہ کے اعتراضات کا جواب تو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ھدی الساری‘‘ میں بالتفصیل دے دیا ہے۔ اور حافظ کے جوابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے غلط فہمی کی بناء پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وامام مسلم رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراضات کا باب کھولا اور بعد میں آنے والوں نے اپنی جہالت کا ثبوت دیا۔ ایک اصولی بات ہے کہ امام بخاری و مسلم نے ’’صحیحین‘‘کو مرتب کرتے ہوئے التزام صحت کو ملحوظ ہی نہیں رکھا بلکہ تصنیف کے بعد انھیں بڑے بڑے ائمۂ فن کے سامنے پیش کیا اور ان ائمہ فن نے ان کی صحت کی تصدیق و تحسین کی پھر انھوں نے اس کی تحدیث کی اور امت مسلمہ نے تلقی بالقبول سے نوازا۔ اعتراض کرنے والے چاہے امام دارقطنی ہوں یا شیخ ناصر الدین البانی یا اور کوئی محدث ِ زمان یہ سارے امام بخاری و مسلم کے سامنے بونے نظر آتے ہیں۔ ذرا سوچئے اور غور کیجیے کہ جو شخص سات لاکھ حدیثوں کا حافظ ہو نیز ان کے راویوں اور علل وغیرہ سے بھی واقف ہو اس پر کوئی مقلد اعتراض کرنا شروع کردے تو اس کو جہالت ہی سے تعبیر کیا جائے گا۔’’صحیح مسلم‘‘کی حدیث (لَا
Flag Counter