Maktaba Wahhabi

420 - 614
ویسے بھی فقراء اور مساکین کا حق ہے جس کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ دوسری طرف ’’ترغیب وترہیب‘‘ میں حدیث ہے: (مَنْ بَاعَ جِلْدَ اُضْحِیَّتِہٖ فَلَا اُضْحِیَّۃَ لَہٗ)[1] ”جس نے قربانی کا چمڑا فروخت کیا اس کی قربانی نہیں۔‘‘ اسی طرح قربانی کا گوشت کرنا بھی بالاتفاق ممنوع ہے۔ شخص ہذا اس زد میں بھی آتا ہے۔ لہٰذا اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ گائے پالنے والے کو باقاعدہ الگ سے مزدوری دی جائے جس کے ذمہ دار سب شرکاء ہوں۔ قربانی کی کھالیں کسی رفاہی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں؟ سوال۔ قربانی کی کھالیں کسی رفاہی کام میں استعمال کی جا سکتی ہیں؟(سائل) (10 مئی 2002ء) جواب۔ قربانی کی کھال مستحق مسکین کو دینی چاہیے، عام رفاہی کاموںمیں صرف کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ کیا قربانی کی کھالوں سے برائے امام مسجد مکان تعمیر ہو سکتا ہے ؟ سوال۔ قربانی کی کھالوں کی رقم، امام مسجد کے مکان پر صرف کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ جب کہ جماعت بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا سکے۔ جواب۔ مصارفِ زکوٰۃ میں لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘کو عام سمجھ کر بعض فقہائے کرام نے تمام اُمورِ خیر اور وجوہِ برّ(نیکی کے کاموں) میں مال زکوٰۃ کے صرف کو جائز رکھا ہے۔ مثلاً مُردوں کو کفن دینا۔پُل بنانا۔ قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس بنا پر امام مسجدکے لیے مکان کی تعمیر بھی اس میں داخل ہو سکتی ہے کیوں کہ قربانی کی کھالوں اور زکوٰۃ کے مصارف ایک ہی ہیں۔ اس عموم پر اگر کوئی عمل کرے اس پر اعتراض تو امرِ مشکل ہے ۔ ہاں اس میں کچھ تأمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘اتنا عام ہے تو دیگر مصارف فقراء و مساکین وغیرہ کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ وہ بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘میں شامل ہیں۔ جب ان کو علیحدہ بیان کیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘کسی خاص شئے کا نام ہے۔ وہ ہے جہاد یا حج عمرہ، جہاد تو بالاتفاق مراد ہے اور حج عمرہ کو حدیث نے داخل کردیا ہے چنانچہ ’’تفسیر فتح البیان‘‘ میں ہے: (وَالاَوَّلُ اَوْلٰی لِاجْمَاعِ الْجَمْہُوْرِ عَلَیْہِ ) ”یعنی پہلی صورت جہاد( مع حج) مراد ہونا بہتر ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
Flag Counter