Maktaba Wahhabi

453 - 614
قصہ ثمامۃ بن اثال رضی اللہ عنہ اس امر کی واضح مثال ہے۔ لہٰذا بندے کو چاہیے کہ عملی زندگی کو سدھارنے کے لیے تعلق باللہ پر انحصار کرکے اس کو مضبوط تر بنانے کی ہر لمحہ سعی کرتا رہے۔ والتوفیق بید اللہ وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون ۔ فوت شدہ کی طرف سے زندہ کا بیعت لینا؟ سوال۔ سالانہ اجتماع عام رائیونڈ سال 1992ء کے موقع پر حسب سابق بیعت عام منعقد ہوئی ہے۔ اس کے اختتامی الفاظ تھے: ’’بیعت کی ہم نے حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر انعام کے واسطے سے۔‘‘(واضح رہے کہ یہ بیعت تبلیغی جماعت کے موجودہ امیر حضرت مولانا انعام الحسن صاحب نے لی) دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا اس نوع کی بیعت جس میں فوت شدہ شخص کے ہاتھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ بیعت ہو، قرآن و سنت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ (عبدالمجید گوندل) (یکم اکتوبر 1993ء) جواب۔ اس قسم کی بیعت امرِ محدث (بدعتی کام)ہے۔شریعت اسلامی میں اس کا کوئی جواز نہیں اور نہ صحابہ کرام اور ائمہ دین سے اس کی سند دستیاب ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔ صحیح حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: ( مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ )[1] ”یعنی جو کوئی دین میں اضافہ کرتا ہے وہ مردود ہے۔‘‘ کیا ’’بیعت کیے بغیر مرنا‘‘ جاہلیت کی موت مرنا ہے؟ سوال۔ میں نے پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ (کراچی) میں پڑھا تھا کہ جو شخص امام کی بیعت کیے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ میں جب سے اہل حدیث ہوا ہوں کسی امام کی بیعت نہیں کی۔ آپ اس بارے میں میری رہنمائی فرما دیجیے۔ جواب۔ حدیث میں امام کی بیعت سے حاکم وقت کی بیعت مراد ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ( مَنْ کَرِہَ مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئًا فَلْیَصْبِرْ، فَإِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً ) [2] ”جس نے اپنے امیر میں کوئی مکروہ (ناپسندیدہ) شے پائی پس چاہیے کہ وہ صبر کرے (اور اُس کا ساتھ نہ
Flag Counter