Maktaba Wahhabi

457 - 614
”مجھے مسلمانوں کے نام لکھ کر دو تو ہم نے پندرہ سو آدمیوں کے نام لکھ کر دئیے۔‘‘ حدیث ہذا تنظیم سازی کے جواز کی دلیل ہے۔ 2۔ ان جماعتوں اور تنظیموں کے امیر کی حیثیت سفری امیر جیسی ہے نہ کہ ’’امیر المومنین‘‘ جیسی، جہاں وہ اپنی حدود میں شریعت کا نفاذ کرتا ہے۔ 3۔ اسلامی خلافت کے احیاء کے لیے انفرادی جدوجہد کی بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اقرب الی الحق تنظیم کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے۔ مثل مشہور ہے: ایک اور ایک دو گیارہ۔ تنظیم سازی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ سوال۔ 1۔تنظیم سازی کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ تنظیم سازی کرنا عین اسلام کی خدمت ہے یا گناہ کبیرہ؟ یا بدعت ہے؟ واضح رہے کہ ایک ہی عقیدہ و نظریہ کے حامل قرآن و سنت کے پیروکاروں نے مختلف ناموں سے بے شمار تنظیمیں بنا ڈالی ہیں۔ ایک ہی قریہ و شہر میں کئی کئی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ لیکن متحد نہیں اور ایک امیر نہیں۔ بلکہ ایک دوسرے کی مخالفت کرتی ہیں۔ الغرض آج کل تنظیم ہی کو معیارِ حبّ و بغض تصور کر لیا گیا ہے۔(ابوعبداللہ شہداد کوٹ سندھ) (13 ستمبر 1996ء) جواب۔امامِ وقت اگر محسوس کرے تو تنظیم سازی کا جواز ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے: ( اُکْتُبُوْا لِیْ مَنْ تَلَفَّظَ بِالْاِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ)[1] ”یعنی مجھے ان لوگوں کے نام لکھ کر دو جو مسلمان ہو چکے ہیں۔‘‘ لیکن یہ تنظیم سازی کفر کے مقابلے میں ہے آپس میں نہیں۔ ہم مسلک اور ہم مشرب مختلف گروہوں اور جماعتوں کی تنظیم سازی اتفاق کے بجائے افتراق کا سبب بنے گی اس سے بچاؤ ضروری ہے۔ امت مسلمہ کے ذمہ سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ خلافت و امارت کے قیام کے لیے سعی کریں۔ جملہ امور شریعت ایک نظم و نسق کے تحت آنے سے ہی ملی وحدت کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ورنہ انجام کارتشتت و تفرق اور انتشار کے ما سوا کچھ نہ ہوگا۔ قرآنی تعلیمات میں اس سے ہمیں باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے: (وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ) (الانفال:46) اور امام المحدثین بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی: (بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالِاخْتِلاَفِ فِی الحَرْبِ، وَعُقُوبَۃِ مَنْ عَصَی إِمَامَہُ)
Flag Counter