Maktaba Wahhabi

480 - 614
مثلاً جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی تو تین راتوں کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بچوں کے سرمنڈوائے۔ فرمایا: (اُدْعُوْا لِیَ الْحَلَّاقَ فَامَرَہُ فَحَلَّقَ رَؤُسَنَا)[1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غسل جنابت میں کوتاہی پر تنبیہ سنائی اور وعید دلائی تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’ اس وقت سے میں اپنے سر کا دشمن بن گیا۔ تین بار ان کلمات کو دہرایا۔ راوی نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے سر کے بال کاٹ ڈالتے تھے۔ صاحب ’’عون المعبود‘‘ فرماتے ہیں: (وَاسْتُدِلَّ بِحَدِیثِ عَلِیٍّ ہَذَا جَوَازُ حَلْقِ الرَّأْسِ وَلَوْ دَوَامًا وَیَدُلُّ عَلَی جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ حَدِیْثُ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ النَّبِیَّ رَأَی صَبِیًّا حَلَقَ بَعْضَ رَأْسِہِ وَتَرَکَ بَعْضَہُ فَنَہَی عَنْ ذَلِکَ وَقَالَ اِحْلِقُوْا کُلَّہٗ اَوِ اتْرُکُوْا کُلَّہٗ ) [2] ”حضرت علی کی اس حدیث سے سر کے بال منڈوانے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے ، اگرچہ کوئی ہمیشہ منڈوائے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث بھی سر کے بال منڈوانے کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈا ہوا تھا اور کچھ حصے کو چھوڑا ہوا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا، فرمایا پورا سر مونڈو یا پورا چھوڑ دو۔‘‘ یہ روایات سر کے بال منڈوانے کی دلیلیں ہیں۔ اس کے باوجود بہتر یہ ہے کہ آدمی سر پر بال رکھے۔ سلف صالحین کی اکثر عادت یہی تھی۔ جملہ فقہی مسالک کو بھی اس بات سے اتفاق ہے۔ سر کے بالوں کی مقدار کتنی ہونی چاہیے؟ سوال۔ سر کے بال جس قدر چاہیں چھوٹے رکھ سکتے ہیں یا کانوں تک ہی رکھنے چاہئیں؟ (شیخ عبداللہ،سنت نگر، لاہور) (26اپریل 2002ء) جواب۔ بال صرف کانوں تک ہونے چاہئیں۔ سر پر بال رکھنے کی مسنون شکلیں کون کونسی ہیں؟ سوال۔ سر پر بال رکھنے کی مسنون شکلیں کون کونسی ہیں؟(حاجی عبدالرحمن السلفی چترال) (15 جنوری 1999ء) جواب۔ سر کے بالوں کو متفرق جگہ سے لینا منع ہے۔ سر کے پورے بال رکھنے افضل ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اسی پر تھا۔ منڈانے کا بھی جواز ہے۔ ایک بچے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض بال مونڈے ہوئے دیکھے تو فرمایا: اس کے سب بال
Flag Counter