Maktaba Wahhabi

502 - 614
”مصافحہ‘‘ ایک ہاتھ سے یا دو ہاتھوں سے کرنا چاہیے؟ سوال۔ محترم مفتی صاحب! عرض ہے کہ میں نے ایک صاحب( جو مسلکاً حنفی ہے) کو ایک ہاتھ سے مصافحے کی حدیث دکھائی تو انھوں نے کہا آپ اہل حدیث حضرات اس حدیث میں ایک ہاتھ( یَدٌ) کس بنا پر مراد لیتے ہو ، حالانکہ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں۔‘‘ اس حدیث کی عربی میں بھی ’’ یَدٌ‘‘ استعمال ہوا ہے ، تو اگر کوئی انسان دوسرے انسان کو مارے تو دوسرا ہاتھ استعمال نہیں کرے گا کیا؟ اسی طرح جب مصافحہ میں ایک ہاتھ یعنی یَدٌ آیا ہے تو دوسرا ہاتھ مصافحہ میں استعمال کرے گا۔ اس مسئلہ کو تفصیل سے تحریر کریں تاکہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ (مرزا عمر علی،شہداد پور) (8۔ اگست 2003ء) جواب۔ یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہاں بحث صرف لفظ’’ یَدٌ‘‘ سے نہیں بلکہ یہ لفظ’’مصافحہ‘‘ کے تابع ہے۔ اہل لغت کے نزدیک ’’مصافحہ‘‘ ہتھیلی کے ہتھیلی کے ساتھ الصاق(مل جانے) کا نام ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (ہِیَ مُفَاعَلَۃٌ مِنَ الصَّفْحَۃِ وَالْمُرَادُ بِہَا الْإِفْضَاء ُ بِصَفْحَۃِ الْیَدِ إِلَی صَفْحَۃِ الْیَدِ) [1] ”مصافحہ بروزن مفاعلہ صفحۃ سے ماخوذ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ ایک آدمی کے ہاتھ کی ہتھیلی کا دوسرے کے ہاتھ کی ہتھیلی کو لگ جانا۔‘‘ علامہ طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے اور علامہ قاری نے ’’مرقاۃ‘‘ میں اور دیگر کئی ایک علمائے حنفیہ نے مصافحہ کی اسی طرح تعریف کی ہے۔ ’’تمہید ابن عبدالبر‘‘ میں ہے کہ عبد اللہ بن بسر نے کہا: (صَافَحْتُ بِہَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ) (رِجَالُہُ کُلُّہُمْ ثِقَاتٌ وَ اِسْنَادُہٗ مُتَّصِلٌ) ”لوگو! تم میرے اس ہاتھ کو دیکھتے ہو، اس کے ساتھ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا تھا۔‘‘ (اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں اور سند متصل ہے) ”مسند احمد‘‘ کے الفاظ یوں ہیں: (تَرَوْنَ کَفِّی ہَذِہِ، فَأَشْہَدُ أَنِّی وَضَعْتُہَا عَلَی کَفِّ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) [2] ”عبداللہ بن بسر نے کہا تم میری اس ہتھیلی کو دیکھتے ہو، پس میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی پر رکھا ہے۔‘‘ ( اس کی سند صحیح ہے)
Flag Counter