Maktaba Wahhabi

503 - 614
واضح ہو کہ لفظ (یَدِیْ ھٰذِہٖ وَ کَفِّیْ ھٰذِہٖ)میں معترض کے دعوے کی واضح تردید ہے کیونکہ ھٰذِہٖ اسم اشارہ واحد کے لیے ہے، لفظ یَدِیْ اور کَفِّیْ میں بھی ایک ہاتھ اور ایک ہتھیلی کا تعین ہے،دونوں مراد نہیں۔ جب کہ سوال میں مشارٌ الیہ حدیث میں عموم مقصود ہے ، یَدٌ حقیقی ہویا معنوی ۔ یعنی مسلمان کو تکلیف دینا ہی منع ہے، ہاتھ سے ہو ، زبان سے ہو ، ٹانگ سے ہو یا کسی دوسری معنوی صورت میں۔ جیسے ناحق کسی کے حق پر قابض ہو جانا بھی تکلیف دہ امر ہے ، لیکن یہ قبضہ حقیقی ہاتھ سے نہیں۔ (عمدۃ القاری:1/20) یہاں یَدٌ کا مفہوم واحد اور تثنیہ کی حدود سے بالاتر ہے، عمومی جملہ صورتوں پر اس کا اطلاق ہو گا۔ واحد اور تثنیہ کا تعین اکثر و پیشتر تصریح سے اور بعض اوقات قرائن سے ہوتا ہے۔ مصافحہ میں دوسرے ہاتھ کا استعمال مصافحہ کی اصل تعریف سے خارج ہے اور’’صحیح بخاری‘‘ میں ابن مسعود کی حدیث: (وَکَفِّی بَیْنَ کَفَّیْہِ) [1]سے مقصود مصافحہ نہیں بلکہ مزید اہتمام تعلیم کی خاطر دونوں ہاتھوں کو پکڑنا ہے۔ مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی نے اپنے بعض فتوؤں میں اس امر کی تصریح کی ہے جس کی تفصیل ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ (7/522) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ مصافحہ دائیں ہاتھ سے ہو، یہی افضل ہے۔ (التحفۃ :7/519) تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: کتاب المقالۃ الحسنی فی سنیۃ المصافحۃ بالید الیمنی للعلامۃ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ تعالیٰ۔ مصافحہ کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟ سوال۔ مصافحہ کرنے کا صحیح طریقہ سنت کی روشنی میں کیا ہے ، بعض افراد دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا پسند کرتے ہیں اور بعض اسے ناپسند کرتے ہیں۔ (محمد عالم بادل کلاں، گجرات) (7 دسمبر 2001ء) جواب۔جزری نے ’’النہایہ‘‘ میں کہا ہے کہ ’’مصافحہ‘‘ مفاعلہ کے وزن پر ہے، جس کے اصل معنی ہیں: ’’ہتھیلی سے ہتھیلی کا لگنا اور چہرے کا چہرے کی طرف متوجہ ہونا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے’’فتح الباری‘‘ میں کہا ہے کہ یہ مفاعلہ کے وزن پر ہے اور صَفْحَۃ سے مراد یہ ہے کہ ہاتھ کی ہتھیلی کا ہاتھ کی ہتھیلی کی طرف پہنچنا۔ اسی طرح علماء حنفیہ میں سے ملاعلی قاری نے ’’مرقاۃ‘‘ میں اور طحاوی وغیرہ نے کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا لغوی طور پر مصافحہ میں اصل یہ ہے کہ صرف ایک ہاتھ سے ہو۔ احادیث سے بھی اس امر کی تائیدہوتی ہے۔ چنانچہ ’’مسند احمد‘‘ میں
Flag Counter