Maktaba Wahhabi

509 - 614
ملاقات کرتے تو(تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ) [1] ’’اللہ ہماری اور تمہاری عید قبول فرمالے۔‘‘ کہہ کر ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے۔[2] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک آدمی دوسرے کو عید کے دن (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ) کہے۔حرب نے کہا کہ امام احمد سے سوال ہوا کہ عیدین میں لوگ یہ کہتے ہیں (تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَ مِنْکَ) اس کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا: کوئی حرج نہیں۔ یہ بات اہل شام نے ابو امامہ سے نقل کی ہے۔[3] ابو امامہ کا یہ اثر ترکمانی نے ’’سنن کبریٰ بیہقی‘‘ کے حاشیے پر ذکر کیا ہے۔(3/320) امام احمد نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے۔ البتہ خصوصی گلے ملنے کی کسی روایت میں صراحت نہیں، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عید کے دن ایک دوسرے سے گلے ملنا کوئی مسنون اور ثابت شدہ عمل نہیں، البتہ عام اظہارِ محبت کے لیے اگر معانقہ کر بھی لیا جائے تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ) ٹیچر وغیرہ کے احترام میں کھڑے ہونا؟ سوال۔ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ: 1۔آج کل تقریباً تمام اسکولوں میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ جب کوئی ٹیچر کسی کلاس میں جاتا ہے تو سب بچے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب تک استاد کرسی پر نہ بیٹھے یا بچوں کو نیچے بیٹھنے کا حکم نہ دے پوری کلاس کھڑی رہتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی عالم دین کسی کے پاس ملاقات کے لیے جاتا ہے تو وہ لوگ بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جب تک وہ نہ بیٹھے کھڑے رہتے ہیں۔ اوراسی طرح اسکولوں میں جب ہمارا قومی ترانہ گایا جاتا ہے تو اساتذہ سمیت تمام طلباء سجدہ کی جگہ نظریں جمائے کھڑے رہتے ہیں، تو کیا یہ قیام کتاب و سنت کی روشنی میں جائز ہے یا حرام؟ مدلل و مفصل تحریر فرمائیں۔ جواب۔ مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ ایک گروہ اساتذہ کرام اور بڑے بزرگوں وغیرہ کے لیے بطورِ احترام کھڑے ہونے کا قائل ہے۔ ان میں سے امام نووی اور غزالی، وغیرہ ہیں۔ ان کا استدلال فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم(قُوْمُوْا اِلٰی سَیِّدِکُمْ) [4]سے ہے۔ ابن بطال شارح بخاری نے کہا ہے:
Flag Counter