Maktaba Wahhabi

514 - 614
کرے۔ بصورتِ عدم رضا ذمہ داری اس پر عائد ہوگی۔ اور اس کی عبادت بھی محل نظر ہوگی۔ ہاں البتہ مقاطعہ کا سبب اگر شرعی عذر ہے تو تین دن سے زیادہ بھی جائز ہے۔ جس طرح کہ حضرت کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کا غزوہ تبوک میں قصہّ معروف ہے۔ دو بھائیوں کی باہمی لڑائی میں صلہ رحمی کا حکم سوال۔ دو بھائیوں کی باہمی لڑائی یا ناچاقی کی صورت میں صلہ رحمی کے شرعی حکم پر کس طرح عمل ہو سکتا ہے جب کہ ایک بھائی سے تعلق رکھا جائے تو دوسرا ناراض ہوتا ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلقی کا خطرہ ہے۔ (عبدالقدوس سلفی پوسٹ بکس 30 ڈیرہ غازیخان) (6 نومبر1992ء) جواب۔ دونوں بھائیوں سے آپ برابری کی بنیاد پر احسان و سلوک کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود اگر کوئی بُعد اختیار کرتا ہے تو عند اللہ آپ مسؤل نہیں ہوں گے۔ ان شاء اللہ بشرطیکہ اپنی نیت میں خلوص رکھیں۔ حتی المقدور قرب کے لیے کوشاں رہیں۔ والتوفیق بید اللہ قطع رحمی پر مبنی وصیت پر عمل کرنا سوال۔ ایک برادری جس کا عقیدہ ومسلک اہل حدیث ہے۔ بزرگوں کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم چلی آرہی ہے۔ برادری کے ایک دھڑے کا کہنا ہے کہ ہمارے جد امجد نے وصیت کی تھی تم نے دوسرے دھڑے کے ساتھ روابط کے سلسلہ میں بچ کے رہنا۔ اس لیے ہم ان سے تعلقات نہیں رکھتے۔ کیا ایسی وصیت پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں؟ (عبدالقدوس سلفی پوسٹ بکس 30 ڈیرہ غازیخان) (6 نومبر1992ء) جواب۔ اکابر کی وصیت اگر ٹھوس دینی مصلحت پر مبنی ہے تو وہ لائق عمل ہے۔ جس کا جائزہ و فیصلہ بنظر ِ غور بذمہ علماء راسخین فی العلم ہے ورنہ اس وصیت کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان سب لوگوں کو اپنے تعلقات فوراً بحال کرلینے چاہئیں۔ اس صورت میں ہم والد کی تابعداری کریں یا صلہ رحمی کا تقاضا پورا کریں؟ سوال۔ والد کا اپنی اولاد میں سے بعض کے ساتھ جھگڑا ہے وہ اپنی دوسری اولاد جس کے ساتھ اس کی صلح ہے کو پہلی اولاد سے تعلقات منقطع کرنے کا حکم دیتا ہے تو کیا اس صورت میں والد کی اطاعت کرنی چاہیے یا صلہ رحمی کے تقاضے کو مد نظر رکھتے ہوئے والد کے حکم کی پروا کیے بغیر تمام بہنوں / بھائیوں سے تعلقات بنائے رکھنے چاہئیں؟ (عبدالقدوس سلفی پوسٹ بکس 30 ڈیرہ غازیخان) (6 نومبر1992ء) جواب۔ والد کے جھگڑے کی بنیاد اگر دینی ہے تو دوسری اولاد کو والدکی پیروی کرنی چاہیے اور اگر محض دنیاوی ہے تو اس صورت میں والد کی اطاعت ضروری نہیں۔ پہلی اولاد سے تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔
Flag Counter