Maktaba Wahhabi

518 - 614
”اس حدیث میں حضرت معاویہ کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے انھوں نے ہی بحری غزوہ کیا اور ان کے بیٹے یزید کی فضیلت ہے کیونکہ سب سے پہلے وہی مدینہ قیصر(قسطنطنیہ ) پر حملہ آور ہوا۔‘‘ ظاہر ہے کہ جب حدیث صحیح بخاری میں ہے تو بلاشبہ صحیح ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الاعتصام(8/محرم الحرام 1418ھ،جلد: 49، شمار:18) ۱1997ء م۔ قصۂ قرطاس کی حقیقت کیا ہے ؟ سوال۔ اہل تشیع بخاری کی اس حدیث کو عموماً اپنے حق میں پیش کرتے ہیں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے دوران یہ فرمانا کہ میرے پاس قلم دوات لے آؤ کہ میں آپ کو لکھ دوں مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں قرآن کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہذیان میں ایسا کہہ رہے ہیں۔ا س سے اہل تشیع درج ذیل مسائل ثابت کرتے ہیں۔(1) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا کہنا نہ مان کر گستاخی کی۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہذیان میں مبتلا کہہ کر گستاخی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہذیان میں ہونا شان کے خلاف ہے۔ (3) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد خلافت کے بارے میں لکھنا چاہتے تھے۔( 4) آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو امّی تھے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ لاؤ میں لکھ دوں؟ لہٰذا حدیث عقل و نقل کے خلاف ہے۔ جواب۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطورِ شفقت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کے غلبہ کی وجہ سے روکا تھا۔ لہٰذا یہ گستاخی نہیں۔ علی سبیل التنزل اگر اس کو گستاخی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں عمر رضی اللہ عنہ منفرد نہیں تھے بلکہ وہاں کئی ایک صحابہ و اہل بیت موجود تھے۔ وہ سب اس میں شریک ہوں گے۔ نیز تنہا عمر رضی اللہ عنہ پر الزام لگانا بے انصافی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ تحریر کروایا۔ جب کہ ان کو قربِ دامادی حاصل تھا۔ فتح الباری وغیرہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کوئی کاغذ لاؤ جو لکھا جائے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے روکنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رُک جانا منصب ِ رسالت کے منافی ہے۔ جب کہ آپ پر تبلیغ فرض ہے۔ اس واقعہ کے بعد چند روز تک آپ زندہ رہے اگر کوئی ضروری تحریر ہوتی تو ضرور لکھوا دیتے۔ 2۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مقولہ نہیں۔ حدیث کی کسی کتاب میں اس امر کی تصریح موجود نہیں۔ دوسرا ہجر بمعنی ہذیان لینا غیرمتبادر ہے۔ یہ لفظ جدائی کے معنی میں کثیر الاستعمال ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: (وَاھْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا) (المزمل:10) دوسری آیت میں ہے: (وَاھْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ) (النساء:34) تیسری بات یہ ہے ہجر کے بعد استفھموہ کا لفظ موجود ہے جس کے معنی یہ ہیں۔ آپ سے پوچھو تو سہی کیا ارشاد فرماتے ہیں اگر ہجر کے معنی ہذیان کے لیے جائیں تو اِسْتَفْہَمُوْہ سے بے ربط اور بے کار ہو جاتا ہے جس کو ہذیان ہو گیا ۔ اس سے پوچھنا خلافِ عقل ہے۔ ثابت ہوا ہَجَریَھْجُرُ کے معنی جدائی کے ہیں نہ کہ ہذیان ( فیصلہ حدیث قرطاس،ص:69)
Flag Counter