Maktaba Wahhabi

525 - 614
سے جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (سائل: سراج احمد، اٹک) (یکم جون 2007ء) جواب۔مندرجہ بالا روایت صحیح ہے لیکن یہ واقعہ خواب کا ہے غیر نبی کی خواب سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے۔ بحالت خواب آدمی بعض دفعہ وسیع وعریض مناظر کا مشاہدہ کرتا ہے جس کا احاطہ کرنا بحالت بیداری ناممکن ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اگرچہ زندہ ہیں لیکن بیان کردہ منظر تو خواب کا ہے جو اثبات شریعت کے لیے قابل حجت نہیں۔ لہٰذا مذکورہ قصہ یہ کوئی ایسی شے نہیں جس پر استعجاب کا اظہار کرکے قرآنی عقیدہ اموات کے خلاف قرار دیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوابی اور برزخی مناظر ومشاہدات سے دنیاوی احکام ثابت کرنا کم عقلی ہے۔ ذی علم اور فہم وفراست کے حاملین کا شیوہ نہیں کیونکہ وہ تعبیر خواب اور تعبیر شریعت کے تفاوت کو ملحوظ رکھ کر میزانِ عدل کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پھر اس سے باطل عقیدہ کو ثابت کرنے کی سعی وہی شخص کرے گا جو شرعی احکام سمجھنے سے قاصر ہے۔ واللّٰہ یہدی من یشاء الی صراط مستقیم ۔ شیعہ ہمسائے کی طرف سے لغویات سے بھرپور کتابچہ کی استنادی حیثیت سوال۔ ایک شیعہ ہمسائے نے ایک کتابچہ مجھے لا کردیا جس میں کئی ایک لغویات کے علاوہ یہ حدیث بھی درج تھی: (قَالَ رَسُوْلُ اللٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَا عَلِیُّ اَنْتَ وَ شِیْعَتُکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ) ’’اے علی رضی اللہ عنہ ! تو اور تیرے شیعہ جنتی ہیں۔‘‘ اس کی استنادی حیثیت سے مطلع فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ (پروفیسر سعید احمد لکھوی) (23 جون 2000ء) جواب۔ مشارٌ الیہ روایت کی کوئی اصل نہیں۔ مناقب علی رضی اللہ عنہ میں اکثر روافض کی وضعی روایات ہیں۔ جن کی کوئی اصل نہیں۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْہَا۔ مدینہ قیصر پر حملہ آور پہلا لشکر جس کے لیے مغفرت کا وعدہ ہے وہ کونسا ہے؟ سوال۔ (اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَۃ الْقَیْصَرِ مَغْفُوْرٌ لَّہُم) (بخاری) مذکورہ بالا حدیث کی اسنادی حیثیت بیان فرمائیں اور اس حدیث کے مطابق پہلا کمانڈر جیش مغفور کا کون ہے ؟ بعض علماء اعتراض کرتے ہیں کہ کمانڈر اوّل پہلے نیک تھا مگر بعد میں بدچلن، شرابی، زانی صفات کا حامل بن گیا۔ اس لیے وہ مغفرت کی بشارت سے محروم ہے۔ کیا یہ اصول صحیح ہے ؟ کیا لسانِ نبوت سے کسی کو مستحسن فعل پر جنت کی بشارت مگر اُس کو فعلِ بد کی صورت میں دوزخ کی وعید؟ ( محمد سفیان۔ شیخوپورہ) (16 مئی 1997ء) جواب۔ مشارٌ الیہ روایت صحیح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو اپنی’’صحیح میں‘‘(بَابُ مَا قِیلَ فِی قِتَالِ الرُّومِ) کے تحت بیان فرمایا ہے۔ لیکن اس میں اوّلیت کے اعتبار سے کسی شخص کا تعین نہیں۔ البتہ شارح’’صحیح بخاری‘‘ المہلب نے
Flag Counter