Maktaba Wahhabi

622 - 614
، ثُمَّ تَمَنَّی عَلَی اللَّہِ)[1] یعنی عقلمند اور دانا بینا وہ ہے جس نے اپنے نفس کو رب کی رضا کے تابع کردیا اور عاجز و بے بس وہ ہے جو نفسانی خواہش کی پیروی میں لگا رہا اور اللہ سے صرف ظنون کا متمنی ہے۔‘‘ شخص ہذا منہیات کا مرتکب اگر مر گیا تو قرآن خوانی، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ اس کے لیے نفع بخش نہیں، کیونکہ بذاتِ خود ان اعمال کا بوجھ ہی شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں۔ دوسری طرف یہ شخص مشرک بھی ہے جس کی نجات ممکن نہیں۔ ِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ } (النساء:48) مزید آنکہ یہ شخص کبائر کا مرتکب ہے جس کی نجات کا انحصار مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ بہشتی دروازے کی شرعی حیثیت سوال۔ پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ’’باب الجنۃ‘‘ کے نام سے جو دروازہ ہے جسے عوام الناس ’’بہشتی دروازہ‘‘ کہتے ہیں۔ عرس کے موقعے پر مزار کا ’’مجاور اکبر‘‘ سجادہ نشین اس دروازے کی قفل کشائی کرتا ہے اور ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گویا انھوں نے جنت کا دروازہ عبور کر لیا ہے۔ اب جواب طلب مسئلہ یہ ہے کہ: 1۔ جنت کا دروازہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھلوائیں گے، کیا یہ توہین رسالت نہیں ہے؟ کیا یہ گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے؟ 2۔ جو لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (سائل: مرزا سجاد انور، شیخوپورہ روڈ۔ فیصل آباد) (28اپریل 2006ء) جواب۔ : 1۔ شریعت کی نگاہ میں ’’بہشتی دروازہ‘‘ کا اِطلاق صرف اُخروی جنت کے دروازے پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّۃِ )[2] ”سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گا۔‘‘ ”صحیح مسلم‘‘ ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں: (آتِیْ بَابَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [3]
Flag Counter