Maktaba Wahhabi

634 - 614
لمحہ ہونی چاہیے۔ { اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ} (المائدۃ:27) مدارس کے طلبہ کو کھانا کھلانا سوال۔ مسکین کون لوگ ہیں۔ کیا مدارس میں پڑھنے والے بیرونی طلباء کو کھانا کھلانے سے مسکینوں کے کھانا کھلانے کا حق ادا ہو جاتا ہے۔(ایک اللہ کابندہ) (13ستمبر 1991ء) جواب۔ مسکین وہ لوگ ہیں جن کی گزر اوقات بمشکل ہو۔ مدارس میں پڑھنے والے سبھی طلبہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اس زمرہ میں صرف وہی داخل ہوں گے جو اس صفت سے واقعتا متصف ہوں۔ یہ کہنا کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہو جاؤں سوال۔ زید نے کہا کہ اگر میں فلاں کام کروں تو کافر ہو جاؤں۔ پھر وہ یہ کام بھی کر لیتا ہے تو کیا وہ کافر ہو جائے گا؟ جواب۔ ایسے شخص کو اپنے فعل سے تائب ہونا چاہیے اور اگر وہ اس پر مصر ہو اور توبہ کے لیے تیار نہ ہو تو اس کا عَود الی الکفر ہو گا۔ قرآن مجید میں ہے: (وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَ) (آل عمران: 135) ”اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ بخش بھی کون سکتا ہے اور جان بوجھ کر اپنے افعال پر اڑے نہیں رہتے۔‘‘ مروّجہ دست بوسی اور قدم بوسی وغیرہ کا شرعی حکم سوال۔ :کسی نیک بزرگ یا پیر یا پیشوا کے ہاتھ اور پاؤں کو تعظیماً بوسہ دینا درست ہے یا نہیں کیونکہ ابوداؤد شریف ج:3حدیث نمبر 1784 میں ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا کیا ہم بھی کسی نیک سیرت بزرگ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دے سکتے ہیں۔ (سائل: محمد احمد قلعہ کالر والا تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ) (7ستمبر 1990ء) جواب۔ امام ابوداؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ میں کئی احادیث نقل کی ہیں۔ جن میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی محبت کی ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں صحابہ رضی اللہ عنھم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ، پاؤں یا جسم کو بوسہ دیا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور انھیں اپنے ساتھ لگایا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو چوما کرتے تھے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات میں دونوں کا آپس میں چومنا ثابت ہے۔ سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے وہ وفد عبدالقیس کا واقعہ ہے جس میں ایک شخص منذر الاشبح بھی تھا۔ لیکن دوسرے ساتھیوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لپک کر بوسے دینے کے باوجود اس شخص نے تحمل اور وقار کا مظاہرہ کیا اور تسلی سے اپنا سامان اور سواری باندھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دوسروں کو بوسوں سے اظہارِ محبت کے باوجود منذر کے تحمل اور تسلی سے کام کرنے کی تعریف فرمائی۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود،ج:4،ص:523 تا 526) مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ واقعات محبت کی علامات ہیں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین کی اصل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: (لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ) [1] اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو آپ نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کوئی شخص اپنی جان سے بھی زیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار نہ کرے تو وہ بھی مومن نہیں۔‘‘ یہ محبت اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو کسی اور سے نہیں کی جا سکتی تاہم وہ افعال جو محبت کا مظہر ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بھی انجام دیے جا سکتے ہیں جیسا کہ اپنی اولاد کے ہاتھ پاؤں چومنا پیار کی نشانی ہے۔ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ترغیب فرمائی ہے اور ایسی چیزوں سے محرومی بے رحمی پر محمول کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارا یہی وطیرہ بزرگوں اور پیروں سے روا ہے بظاہر اگر اس کی وجہ دین کی محبت اور علم کا احترام ہو تو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے لیکن بعض کام مختلف پہلوؤں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک پہلو سے پسندیدہ ہونے کے باوصف دوسرے پہلو سے خرابیوں کا باعث ہوتے ہیں یا کسی بڑے گناہ سے مشابہت ہو سکتی ہے تو برائی کے ذرائع بند کرنے کے لیے اہل علم اس سے روکتے بھی ہیں۔ جیسے کسی پیر، فقیر کے پاؤں کو بوسہ دینے کے لیے جھکنے کی صورت سجدہ کے مشابہہ ہے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شریعت میں اسی وجہ سے سجدہ تعظیمی تک کو شرک قرار دیا گیا ہے۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بدعت کی بحث میں ایک بدعت اضافی کا ذکر کیا ہے جس کی تعریف ایسا کام ہے جو کتاب و سنت کی طرف منسوب ہو، لیکن شریعت کی مقررہ حدود سے متجاوز ہوجائے۔ سلف صالحین سے اس احتیاط کے پیش نظر ایسی چیزوں کو چھوڑنا یا مٹا دینا بھی ثابت ہے۔ جس سے عوام حدودِ شرعیہ کاپاس نہ رکھیں جیسے کہ صلح حدیبیہ کے وقت جس درخت کے نیچے چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنھم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جب بعد میں اُس کو دیکھنے کے لیے عوام اہتمام کرتے نظر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس درخت کو ہی کٹوادیا۔ امام شاطبی رحمۃ اللہ علیہ اولیاء اللہ کی تعظیم میں ان کی پیروی کی تاکید کرتے ہیں لیکن ان کو چومنا چاٹنا بدعات اضافیہ میں سے شمار کرتے ہیں۔ کیونکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بزرگوں کی تعظیم کی غرض سے ان کے ہاتھوں کا بوسہ بُرا جانا ہے۔
Flag Counter