Maktaba Wahhabi

637 - 614
ارادی طور پر محض اظہارِ محبت پر محمول ہوں گے جیسا کہ عربوں میں ایسا قومی رواج تھا۔ اور اب بھی غالباً پایا جاتا ہے کہ وہ پیشانی، پہلو ،شانے وغیرہ ملاقات کے وقت بعض دفعہ چومتے ہیں بلکہ رخسار بھی۔چنانچہ یہ واقعات بھی بالکل تازہ اسلام قبول کرنے والے لوگوں سے واقع ہوئے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معمول کے مطابق ہونے یا بعض مصالح کی بنا پران کو روکا نہیں لیکن اس کو امر تشریعی سے کوئی تعلق نہیں، ورنہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم آپ سے یہ معاملہ عموماً کرتے جس کا صریح و صحیح ثبوت کوئی نہیں۔ علاوہ ازیں جھک کر ہاتھ چومنے کا ذکر ان روایات میں بھی نہیں جیسا کہ پیر پرست حلقوں کا معمول ہے۔ (3)مروّجہ قدم بوسی اور گھٹنوں بوسی کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں جو دو روایتیں آپ کو دی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ نہ وہ مروّجہ قدم بوسی کی دلیل ہو سکتی ہے۔ (الف) بریدہ والی روایت کی سند میں صالح بن حیان ایک راوی ہے جو سخت مخدوش ہے۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ (ص:10،ج:9) میں ہے: (رَوَاہُ الْبَزَّارُ وَفِیْہِ صَالِحٌُ بْنُ حَیَّان وَ ہُوَ ضَعِیْفٌ) ’’تقریب التہذیب‘‘ (ص:87) میں ہے:(ضَعِیْفٌ)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(فِیہِ نَظْرٌ) (یہ بھی محلِ نظر ہے) (تاریخ صغیر،ص:75) ، التعلیقات السلفیہ علی سنن نسائی(ص:165،ج:2) میں بحوالہ ’’میزان الاعتدال‘‘، حافظ ذہبی اور ’’تہذیب حافظ ابن حجر، امام ابن معین، امام ابوداؤد ، امام بخاری ، امام نسائی ، حافظ ابن حبان ، حافظ دارقطنی ، حربی سے اس کی سخت تضعیف نقل کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت سخت مخدوش ہے۔ رہی امام حاکم کی تصحیح تو ان کا تساہل مشہور ہے۔ اس بارے میں اہل فن ان پر اعتبار نہیں کرتے۔اس لیے روایت ناقابلِ اعتماد ہی قرار پاتی ہے۔ (ب) وفد عبد القیس والی روایت بھی قابلِ حجت و اعتماد نہیں۔ اس کی سند میں مطر بن عبدالرحمن الاعنق ایک راوی ہے جس کے متعلق ’’سنن نسائی‘‘ کے حاشیہ پر ’’تہذیب‘‘ (ص:14،ج:1) کے حوالہ سے لکھا ہے:(یَروِی المقاطِع) (التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی،ص:165،ج:1) ’’یہ راوی مقطوع روایتیں بیان کرتا ہے۔‘‘ (ج) یہ واقعہ بھی عرب کی قومی عادت کی بناء پر فرطِ محبت کے نتیجے میں ہوگیا ہے ۔ بطورِ امر شرعی نہیں۔ قرینہ اس پر یہ ہے کہ یہ وفد حدیث العہد بالاسلام (اسلام کے شروع زمانہ میں) تھا۔ ایسی معمولی باتوں کو ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نظر انداز فرما دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی موقع کے لیے علماء کا اصول ہے( عَین لَا عَموْم لَہَا) (ایک اتفاقی واقعہ سے عموم ثابت نہیں ہوتا) (9 مارچ 1984ء) کیا کراماً کاتبین غیبی اُمور کا علم رکھتے ہیں؟ سوال۔ کراماً کاتبین قلبی اعمال پر بھی مطلع ہو جاتے ہیں، یا عملی صورت میں ظہور کے بعد؟ (سائل حبیب اللہ)(13جولائی 1990ء)
Flag Counter