Maktaba Wahhabi

647 - 614
تصدیق ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یوں ہیں: (کَیْفَ یَسْتَعْبِدُہُ وَ قَدْ غَذَاہُ فِیْ سَمْعِہٖ وَ بَصَرِہٖ )[1] ”یعنی پہلے کی حاملہ سے جماع کرنے والابچہ کو اپنا غلام کیسے بنائے گا حالانکہ اس کے کان اور آنکھ میں اس نے غذا پہنچائی ہے۔‘‘ یاد رہے وطی صرف اس لونڈی سے ممنوع ہے جو قیدی بنتے وقت حاملہ تھی تاکہ سلسلہ نسب کااختلاط نہ ہونے پائے ورنہ عام حالات میں استبراء رحم(رحم کو پاک کرنا یعنی ماہواری کی آمد کاانتظار کرنا) کے بعد آزاد عورت کی طرح لونڈی سے بھی جماع جائز ہے ۔ بعد ازاں خواہ مالک سے حاملہ ہی کیوں نہ ہو پھر بھی جماع جائز ہے۔ سو حدیث (سَقِیَ الْمَائَ زَرْعَ غَیْرِہٖ) کاتعلق صرف غیر کے حمل سے ہے نہ کہ اپنے سے اس میں تو آزاد عورت او رلونڈی دونوں کا جواز یکساں ہے۔ اس توجیہ اور تشریح سے باہمی علت کا اشتراک بھی عیاں ہوجاتا ہے۔ نیز واضح ہو کہ غیلۃ سے منع والی روایت مشکوٰۃ میں باب استبراء کے تحت بیان نہیں ہوئی بلکہ اس کا تعلق باب المباشرۃ سے ہے۔ اگرچہ اصلاًغیلہ جائز ہے لیکن موضوع ہذا سے غیر متعلق ہے۔ غیلہ کی تعریف امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور اصمعی کے نزدیک یوں ہے۔ (اَن یُجَامِعَ اِمْرَأَتَہُ وَ ہِیَ مُرْضِع) ”حالت رضاعت میں بیوی سے مجامعت کرنا۔ یہ بھی یاد رہے اصل لفظ غِیلہ ہے غلیہ نہیں ہے جس طرح کے سوال میں ہے۔ ملاحظہ ہو شرح مسلم نووی:10/16 حالت حمل میں بیوی سے وطئی کرنا سوال۔ ایک کتاب’’ وہ ہم میں سے نہیں‘‘ عبدالکریم اثری خطیب جامع مسجد الغائیہ گجرات کی لکھی ہوئی میرے پاس ہے ، کے صفحہ:73پر ایک حدیث لکھی ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص اپنی حاملہ بیوی سے حالت ِ حمل میں ازدواجی تعلق قائم کرے وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ (کنزالعمال ، ج:5،ص:185، بحوالہ طبرانی عن ابن عباس) اس حدیث کی حقیقت کے بارے میں مطلع فرمادیں۔ (منیر احمد ، رحیم یار خان) (26 فروری 1999ء) جواب۔ حالت ِ حمل میں بیوی سے وطی کرنا منع نہیں کیوں کہ اصلاً ہر حالت میں استمتاع کا جواز ہے۔ ما سوا اس حالت کے جس میں شریعت نے وطی سے منع کیا ہے۔ مثلاً فرمایا: (اصْنَعُوا کُلَّ شَیْئٍ إِلَّا النِّکَاحَ)[2]
Flag Counter