Maktaba Wahhabi

654 - 614
بہلایا جاسکتا ہے۔ امانت میں نقصان کا ذمہ دار کون ہے؟ سوال۔ الف اپنے کام میں مصروف تھا۔ ب اس کے پاس آیا ۔ الف نے ب سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ ب نے جواب دیا کہ ایک ذاتی کام سے شہر جا رہا ہوں۔ الف نے اس کو کہا کہ میری گھڑی لیتے جاؤ اس میں بیٹری سیل لگوا دینا۔ ب نے وہ گھڑی لے لی اور شہر چلا گیا۔گھڑی ساز نے وہ گھڑی مرمت نہ کی اور ب کو واپس دے دی اور ب واپس اپنے مقام کی طرف لوٹ رہا تھا کہ راستہ میں موٹر سائیکل کو حادثہ پیش آگیا اوراُس حادثہ کی وجہ سے وہ گھڑی گم ہو گئی۔ سوال یہ ہے کہ وہ گھڑی جو گم ہوئی ہے وہ نقصان الف کا ہوا ہے یا ب کا ؟ مہربانی فرما کر کتاب وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ (اختر پینٹر ،ضلع گھوٹکی، سندھ) (19جون1998ء) جواب۔ مذکورہ بالا صورت میں گھڑی الف کی ہے۔ نقصان بھی اسی کا ہوا ہے۔ اور ب کی حیثیت صرف امین کی ہے جس کا وہ ذمہ دار نہیں۔ ہاں البتہ اگراس کی کوتاہی ثابت ہوجائے تو پھر اسے بھرنی پڑے گی۔ امانت گم ہو جانے کی صورت میں کیا کرے؟ سوال۔ محترم جناب حافظ صاحب! ایک آدمی نے امانت کے طور پر مدرسہ کے ریال تبدیل کرنے کے لیے مجھے دئیے اور وہ ریال میری کوتاہی کے بغیر میری جیب سے جیب تراش نے نکال لیے۔ مجھے اس کی کچھ خبر نہ ہوئی۔ بعد میں جب مجھے احساس ہوا تو بسیار تلاش کے باوجود وہ نہ مل سکے۔ منتظمین مدرسہ مجھ سے وہ ریال واپس طلب کرتے ہیں۔ میں غریب آدمی اور طالب علم بھی ہوں۔ ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا۔ میرے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (جاوید اقبال۔ فیصل آباد) (13اکتوبر 2000ء) جواب۔ حقائق اور واقعات سے اگر یہ بات واضح ہو جائے کہ رقم کا ضیاع آپ کی کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس صورت میں آپ اس رقم کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔ اور اگر کمی کوتاہی ثابت نہ ہو تو ریالات ادا نہیں کرنے کیونکہ اس کی حیثیت امانت کی ہے۔ خریدو فروخت کے معاہدے کے بعد قبضے سے پہلے اگر سامان چوری ہو جائے تو؟ سوال۔ ایک شخص ’’احمد علی‘‘ نے ’’خان محمد‘‘ سے ایک بکرا خریدا۔ دونوں کے درمیان سودا طے پا گیا۔ مشتری نے کہا میں بکرا کل لے جاؤں گا۔ اگلی رات بکرا بائع کے گھر سے چوری ہو گیا پوچھنا یہ ہے کہ آیا:(1) مشتری کو اس کی رقم بائع کو ادا کرنی ہوگی یا نہیں؟ (2) ایسی بیع شریعت میں منعقد ہو جاتی ہے یا نہیں۔ (احمد علی چیچہ وطنی، ضلع ساہیوال) (19 مارچ 1994)
Flag Counter