Maktaba Wahhabi

77 - 614
كتاب الجنائز ناگہانی موت اچھی ہے یا بری؟ سوال۔ اچانک موت جس سے اللہ کے نبی نے پناہ مانگی ہے اگر کوئی نیک آدمی اچانک حادثہ میں فوت ہو جاتا ہے ، ایسی موت شہادت کی موت تصور کریں گے یا کہ بری موت ہے؟ )عنایت اللہ امین خطیب سبرکھائی و مدرس جامعہ ضیاء الاسلام گہلن ہٹھاڑ)(22 مئی (1992 اچانک موت بری نہیں۔’’صحیح بخاری‘‘میں حدیث ہے: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، میری ماں ناگہانی مرگئی ہے۔ میرا خیال ہے اگر اُسے گفتگو کا موقع میسر آتا تو وہ صدقہ کرتی پس اگر میں اسکی طرف سے صدقہ کردوں تو اُس کے لیے ثواب ہے۔ فرمایا: ہاں۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ اُس آدمی نے اپنی ماں کی ناگہانی موت کی اطلاع جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کراہت کا اظہار نہیں فرمایا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں حدیث ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: (بَابُ مَوْتِ الفَجْأةِ البَغْتِة )مصنف کا مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اچانک موت مکروہ نہیں البتہ اس کو شہید قرار دینے کے لیے کوئی نص صریح موجود نہیں۔ نجات کا دارومدار انسان کی نیت و اعمال پر ہے۔ علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ مسئلہ ہذا کے بارے میں رقمطراز ہیں۔ ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت اچھی نہیں۔ عبید بن خالد سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے۔[1]
Flag Counter