Maktaba Wahhabi

92 - 614
تو ملحوظ نہ رکھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو مسلّمہ قابلِ احترام ہستی ہیں۔ ان کی محبت اپنی جان سے بھی زیادہ چاہیے بایں ہمہ انھوں نے کسی مجلس میں اپنی آمد پر لوگوں کو کھڑا ہوجانے کی بھی اجازت نہیں دی جیسے آج کل لوگ کسی بڑے کے اَدب کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جہلا تو اپنے پیروں مرشدوں سے رخصت ہوتے وقت اَدباً احتراماً اُلٹے پاؤں چلتے ہیں مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ایسے آداب کو اَدب نہیں گردانا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نفلی نماز کے وقت ان کے سجدے کی جگہ پر ہوتے جو سجدے کے وقت ٹانگیں سکیڑ کر پاؤں وہاں سے ہٹا لیتی تھیں۔ ایسی ہستی کے آگے پاؤںرکھنا بھی تو بے اَدبی سمجھی جاسکتی تھی۔ اگر جگہ کم تھی تو آپ کی نماز کے وقت بیٹھ سکتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایسے آداب کوبہتر خیال فرماتے تو کبھی خاموش نہ رہتے بلکہ پاؤں آگے نہ رکھنے کی آئندہ کے لیے ہدایت فرماتے مگر ایسا ثابت نہیں۔ محولہ بالا ’’اولیٰ‘‘ یا ایسے مستحباتی قسم کے اجتہادات سے تو بدعات جنم لینے کا احتمال ہو سکتا ہے۔ محترم مفتی صاحب سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر نظر ثانی فرما کر وضاحت فرمادیں۔ (ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری، مکان:549، گلی 26، گلستان کالونی مصطفی آباد، لاہور۔15) وضاحت (از حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ ) جواباً عرض ہے کہ آپ کی وضاحت درست ہے۔ {فَاتَّقُوْا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (التغابن : 16) ہاں البتہ اختیاری حالت میں اولیٰ وہی ہے جو فتویٰ میں ہے۔ قرآن میں ہے: (وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ) (الحج: 32) (2016/12/7) جنازے کو قبرستان لے جاتے وقت بآوازِ بلند کلمۂ شہادت پڑھنا کیسا ہے؟ سوال۔مردے کو لے جاتے وقت کلمۂ شہادت پڑھنا کیسا ہے؟(ابوعبداللہ نذیر احمد جونیجو،سندھ) (7مئی 1999ء) جواب۔ میت کو قبرستان لے جاتے وقت کلمۂ شہادت کا وِرد کرنا احادیث سے ثابت نہیں۔ دین میں اپنی طرف سے اضافہ کرنا درست نہیں۔ کما تقدم۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اِتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفیْتُمْ) ”پیروی کرو بدعت مت نکالو۔تمہارے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہی
Flag Counter