Maktaba Wahhabi

96 - 614
جواب۔ : امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَالظَّاھِرُ اَنَّ الجَھرَ، وَالِاسرَارَ بِالدُّعَائِ جَائِزَانِ) [1] ”ظاہر یہ ہے کہ جہری اور سری دعا دونوں طرح جائز ہے۔ ‘‘ نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا سوال۔(1)) نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا۔ (2)نمازِ جنازہ میں دوسری نمازوں کی طرح سورۂ فاتحہ کے بعد کوئی اور سورت ملانا۔(3) اور جنازے کی دعائیں بلند آواز سے پڑھنا۔ کیا یہ تینوں باتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟اگر ایسا نہیں تو کیا ایسے امام کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے ؟ اور یہ جنازہ ادا ہو گیا یا اس کا اعادہ ضروری ہے؟ جواب۔ (1)نمازِ جنازہ میں فاتحہ پڑھنی مسنون ہے۔ حدیث میں ہے:( وَاِذَا صَلَّی عَلَیہِ کَبَّرَ، ثُمَّ قَرَأَ الفَاتِحَۃ) یعنی جب آپ میت پر نماز پڑھتے تو تکبیر کہتے پھر فاتحہ پڑھتے۔[2] اس کی سند صحیح ہے۔ پھر صحیح حدیث کا عموم بھی ہے (لَا صَلٰوۃَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَۃِ الکِتَاب)[3] یعنی’’جس نے نماز میں فاتحہ نہ پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘یہ بھی اس کی مشروعیت پر دالّ ہے۔ کیونکہ شریعت نے جنازہ کا نام بھی نماز ہی رکھا ہے اور کسی بھی نماز کا وجود بلا فاتحہ نہیں۔ اسی طرح طلحہ بن عبد اللہ بن عوف کا بیان ہے، کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اقتداء میں ایک جنازہ پڑھا، تو انھوں نے ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھی اور فرمایا: کہ تم کو معلوم ہونا چاہیے یہ سنت طریقہ ہے۔[4] (2) سورہ فاتحہ کے بعد جنازہ میں سورت ملانے کا جواز ہے ۔چنانچہ زید بن طلحہ سے مروی ہے، کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے سنا:(قرَأَ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَاتِحَۃَ الکِتَابِ وَ سُورَۃً وَ جَہَرَ بِالقِرَائَ ۃِ) [5] یعنی ’’انھوں نے جنازہ میں فاتحہ اور ایک سورت پڑھی اور قرأت جہری کی۔‘‘ اسی طرح طلحہ بن عبد اﷲ کے طریق سے ہے، کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی:
Flag Counter