Maktaba Wahhabi

249 - 382
طلاق کے مسائل [ طلاق ، عدت ، رجوع ] دعوائے طلاق میں شوہر کا قول معتبر ہو گا یا عورت کا ؟ سوال : (۱) میں مختار احمد نے اپنی بیوی بشریٰ جبین کو تقریباً ۲۴ سال پہلے ایک طلاق دی اور تقریباً پندرہ دن بعد رجوع بھی کر لیا۔ اب پھر تقریباً ۳ ماہ پہلے دوسری طلاق۔ پھر اسی رات ہم نے رجوع بھی کر لیا۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ طلاق یا رجوع کیسا ہے ؟ (۲) دوسرے رجوع کے تقریباً ڈیڑھ یا دو ماہ بعد میری بیوی اور اس کے رشتہ داروں نے تین طلاق کا دعویٰ کردیا۔ اگر بقول میری بیوی یا اس کے رشتہ داروں کے فرض کیا جائے کہ تین طلاقیں دے دی ہیں اور اس کے بعد کا ڈیڑھ، دو ماہ کا عرصہ جو ہم میاں بیوی کی طرح اکٹھے ازدواجی تعلقات کے ساتھ ملتے رہے ہوں تو اس کا کیا حکم ہے؟ (۳) قرآن اور سنت کی روشنی میں یہ فیصلہ کس کے دعویٰ پر ہو گا۔ شوہر کے دعویٰ پر جو کہتا ہے کہ میں نے دو رجعی طلاق دی ہیں یا بیوی کے کہنے پر جو کہتی ہے کہ تین چار طلاق ہوئی ہیں۔ ان کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ نوٹ: یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ میری بیوی نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھے تو ۱۲ سال پہلے ہی طلاق ہو چکی ہے۔(استغفر اللہ) جب کہ مختار احمد نے آج تک دو ہی رجعی طلاقیں دی ہیں۔ (سائل: مختار احمد ولد محمد شفیع) (۱۷ دسمبر۱۹۹۹ء) جواب :( ۱) مذکورہ بالا صورت میں دونوں دفعہ طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے جن کے بعد رجوع درست عمل ہے۔ (۲) بعد میں بیوی اور رشتہ داروں نے تین طلاقوں کا جو دعویٰ کیا ہے بظاہر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ راجح مسلک کے مطابق ایک وقت کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہے۔ (۳) مذکورہ بالا صورت میں جب طلاقوں کی حیثیت مساوی ہے۔ ایک ہو یا تین تو جانبین سے اختلاف خود بخود رفع ہو گیا۔ مزید بحث کی ضرورت باقی نہ رہی۔ باقی رہا عورت کا اِدّعا کہ مجھے طلاق بارہ سال قبل ہو چکی ہے اس دعویٰ کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ فیصلہ حقائق کے
Flag Counter