Maktaba Wahhabi

250 - 382
مطابق ہوتا ہے۔ اس امر میں غالباً مرد کی جانب کو ترجیح ہوتی ہے کیونکہ طلاق کے وقوع کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ عورت کو اس میں دخل نہیں۔ مروّجہ فیملی لاز میں نکاح و طلاق کی شرعی حیثیت: سوال : موجودہ مسلم فیملی لاز آرڈی ننس ۱۹۶۱ء کے تحت میاں بیوی کو طلاق کے سلسلہ میں متعلقہ علاقہ کے کونسلر صاحب سے رجوع کرنے کی جو ہدایت کی گئی ہے اور کونسلر صاحب ۹۰ دن کے اندر فریقین کے درمیان صلح کروانے کے پابند ہیں۔ اگر کونسلر صاحب اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوتے تو ایک سرٹیفکیٹ طلاق مؤثر ہونے کا جاری کردیتے ہیں۔ کیا اس موجودہ سسٹم کو آپ منظور کرتے ہوئے صحیح اسلامی طریقہ قرار دیتے ہیں۔ ہمیں اس طریقہ کے بارے میں قرآن و حدیث کے مطابق فتویٰ عنایت فرمادیں۔ (محمد جمشید راوی روڈ لاہور) (یکم اکتوبر۱۹۹۹ء) جواب : طلاق کو مؤثر قرار دینے کے لیے موجودہ طریق کار اسلامی نہیں۔ اسلام میں طلاق کا تعلق صرف زوجین سے ہے۔ تیسرا کوئی آدمی اس میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ۔اصل صورتِ حال یہ ہے کہ حیض والی عورت کی عدت اسلام نے تین حیض رکھی ہے وہ تین ماہ میں غالباً پورے ہوتے ہیں کبھی بیماری کی وجہ سے حیض رک جاتا ہے تو مزید انتظار کرنا پڑتا ہے کبھی تین ماہ سے پہلے بھی تین حیض پورے ہو جاتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایک ماہ میں بھی تین پورے ہو سکتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو، صحیح بخاری، بَابُ إِذَا حَاضَتْ فِی شَہْرٍ ثَلاَثَ حِیَضٍ۔ تو بتائیے نوے دن مقرر کرنے کو کیا حیثیت باقی رہی؟ ایک طلاق کے بعد رجوع کا مسئلہ: سوال : ایک شخص نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دی۔ کیا اس صورت میں طلاق کے بعد رجوع کااختیار ہے یا طلاق ہو چکی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں دلائل سے جواب دیں شکریہ۔ طلاق ۹۹/۷/۲۷ کو دی گئی۔ (سائل محمد ارشد فورٹ عباس) (۲۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء) جواب : مذکورہ بالا صورت میں چونکہ ’’ طلاقِ رجعی‘‘ واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا شوہر عدت کے دوران رجوع کر سکتاہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) ’’یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں پھر یا تو اچھائی سے روکنا ہے یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘ اور عدت گزرنے کی صورت میں دوبارہ نکاح کا بھی جواز ہے۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب النکاح میں حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔[1]
Flag Counter