Maktaba Wahhabi

254 - 382
کردی۔ اس کے قریباً سوا سال بعد سے بغیر کسی حلالہ یا نکاح وغیرہ کے دونوں پھر میاں بیوی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ اسلامی فقہ کی رُو سے یہ جو زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ جائز ہے یا ان پر کوئی حد لاگو ہوتی ہے؟ (حاجی محمد سلم، محلہ عثمان آباد۔ چنیوٹ) (۱۲ جولائی ۱۹۹۶ء) جواب : موجودہ صورت میں مرد اور عورت کی فوراً تفریق کرادینی چاہیے کیونکہ شرعی طور پر دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ ہر ایک کو اپنے اس فعل پر ندامت کا اظہار کرکے اللہ کے حضور تائب ہونا چاہیے۔ پھر عورت براء ۃِ رحم کے سلسلہ میں ایک ماہ انتظار کرے اور اگر امید سے ہو تو پھر وضع حمل کا انتظار کرنا ہو گا۔ بعد ازاں اگر وہ دونوں باہمی رضا مندی سے رشتہ زوجیت میں منسلک ہونا چاہیں تو انھیں اختیار ہے۔ بدچلنی کے شبہ میں طلاقِ ثلاثہ کا ایک مسئلہ: سوال :ایک مسلمان شخص کی جب سے شادی ہوئی اپنی بیوی کے بد چلن ہونے پر شک رہا۔ کچھ مخصوص آدمیوں کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھنے کا بھی الزام لگاتا ہے۔ اسی طرح شادی کی زندگی کے تقریباً ۱۶ سال گزر گئے۔ اس بیوی کے بطن سے چار بچے بھی پیدا ہوئے۔ آج سے تقریباً چھ سال قبل تواپنے مکان میں موجود ایک فی سبیل اللہ رکھے گئے کرایہ دار سے بھی تعلقات استوار کر لیے۔ خاوند کے اعتراض پر اس کی بیوی نے اپنے خاوند کو گھر سے مار بھگایا۔ اور اس مرد کو اپنے بھائی کے گھر تقریباً چار ماہ تک پناہ لینا پڑی۔ اس دوران دونوں ملزمان( اس کی بیوی اور اس کے کرایہ دار) اس مکان میں اکٹھے رہے۔ اب یہ ہوا کہ اس آدمی کی بیوی نے اپنیایک رشتہ دار مرد سے تعلقات استوار کر لیے۔ خاوند کے اعتراض پر بھی وہ باز نہ آئی۔ اور اس عورت کا آشنا اس عورت کو ملنے اس کے گھر بلا جھجک آتارہا اور گھنٹوں قیام کرتا رہا۔ اس عورت کی وجہ سے اس کے بچے بھی اس غلط آدمی کی خدمت کرتے ، کھلاتے پلاتے رہے۔ خاونداور بیوی کی چپقلش اس آدمی کی وجہ سے بڑھتی گئی۔ حتی کہ دونوں مردوں میں سرعام لڑائی بھی ہوئی۔ آخر اس کی بیوی نے گھر کا سامان ایک اور مکان میں منتقل کرنا شروع کردیا خاوند کی لاکھ منت سماجت اور دھمکیوں کے باوجود وہ عورت تین چار دن میں اپنا سامان لے گئی اور اپنے آشنا کے پاس رہنا شروع کردیا۔ پنچایت بیٹھی تو اس عورت کو تقریباً تین ماہ بعد طلاقِ ثلاثہ ہوگئی۔ اب اکٹھی طلاق کی کیا پوزیشن ہے۔ فرمایے طلاقِ ثلاثہ بیک وقت ۹۸۔۔۵ کو ہوئی تھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اب صلح ہو جائے جب کہ پنچایت کے ذمہ دار لوگ کہتے ہیں کہ عورت کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور یہ طلاق قائم رہنی چاہیے۔ مرد/ خاوند کو مستقل مزاج اور یک طرف ہونے کے لیے پنچایت استفتاء کرتی ہے۔ (محمد حسین ولد منظور حسین چیمہ۔لاہور) (۱۷ جولائی ۱۹۹۸ء) جواب :موجودہ حالت میں طلاقِ مؤثر ہے۔ عدت گزرنے کی صورت میں سلسلۂ زوجیت منقطع ہو جائے گی۔ دوبارہ نکاح کے جواز کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا از بس ضروری ہے۔
Flag Counter