Maktaba Wahhabi

321 - 382
۲۔موجودہ صورت خلع کی نہیں خلع کی تعریف یہ ہے: (( وھو فی اللُّغَۃِ فِرَاقُ الزَّوْجَۃ عَلٰی مَالٍ )) [1] ’’یعنی لغت میں خلع کا معنی یہ ہے کہ مال کے عوض بیوی کا علیحدگی اختیار کرنا۔‘‘ ۳۔موجودہ صورت میں زید کا لڑکا بکر کی لڑکی کا خاوند تصور ہو گا کیونکہ شرعی طلاق نہیں ہوئی۔ ۴۔طلاق واقع ہی نہیں ہوئی اس کا نام بالواسطہ طلاق بالجبر ہے یہ ہر دو صورت میں واقع نہیں ہوتی۔ کما تقدم ۵۔طلاق واقع نہیں ہوئی اور حق مہر بدستور عورت کی ملکیت ہے۔ لوگوں کی باتوں میں آکر طلاق دینا: سوال :کیا فرماتے ہیں علمائے کرام! اس مسئلہ میں کہ مسمّی غلام رسول اپنی بیوی کلثوم کو طلاق دیتا ہے جب کہ بیوی پنجاب میں ضلع لیہ میں بمعہ بچوں کے اپنے والدین کے گھر ہے۔ مسمّٰی غلام رسول نے جب پہلی طلاق بذریعہ ڈاک ۹۴/۱۱/۳۰ کو بھیجی تو عورت حاملہ تھی اور دوسری طلاق بذریعہ ڈاک ۹۵/۱/۱۹ کو بھیجی جب کہ بچے کی پیدائش دسمبر ۱۹۹۴ء کو ہوئی ہے۔ اب بندہ رجوع کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت جو الزامات غلام رسول نے لگائے لوگوں کی باتوں میں آکر لگائے۔ جب کہ بیوی بھی خاوند کے پاس آنے کے لیے رضا مند ہے۔ براہِ کرم فتویٰ دے کر ممنون فرمادیں۔ یہ طلاق نامہ کی نقل ہم ساتھ بھیج رہے ہیں تاکہ آپ کو سمجھنے میں آسانی رہے۔ (سائل عبدالغفور، میر پور خاص، سندھ) (۹ فروری ۱۹۹۶ء) جواب :صورتِ مرقومہ میں طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے۔ بعد ازاں وضع حمل کی وجہ سے زوجیت قطع ہو چکی ہے۔ اب اگر شوہر سابق اتہامات سے تائب ہو کر اس عورت سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ رشتہ داروں کے دباؤ میں آکر طلاق دینا: سوال : میری شادی ۱۹۹۰ء میں ہوئی تھی۔ اور شادی کے بعد میرا ایک بچہ ہے۔ جس کی عمر تقریباً ساڑھے پانچ سال ہے اور شادی کا عرصہ۳ سال ہم دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہے۔ اور عرصہ ۳ سال بعد میں نے اپنی بیوی کو اپنے گھر والوں اور دیگر رشتہ داروں کے دباؤ میں آکر طلاق دے دی۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد ہم نے دوبارہ صلح کرلی۔ مگر عزیز و اقارب اور دیگر رشتہ داروں نے دوبارہ زدوکوب کیا اور ہمارے آپس میں لڑائی جھگڑے کروائے اور ہر ممکن کوشش کی کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ نہ رہیں تو میں نے
Flag Counter