Maktaba Wahhabi

331 - 382
((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً)) [1] لہٰذا عدّت کے اندر رجوع جائز ہے اور عدت گزرنے کی صورت میں شوہر عقد جدید بھی کر سکتا ہے۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔) طلاق کے علاوہ الفاظ استعمال کرنے سے طلاق کا حکم: سوال :زید کی بیوی اپنے شوہر کی عدم موجودگی میں اپنی ساس سے ہاتھا پائی اور جھگڑا کرکے اپنے میکے چلی گئی۔ جب زید کو اس بات کا علم ہوا (زید دوسرے شہر میں رہتا ہے) تو اس نے اپنے ایک بزرگ دوست کے ذریعے درج ذیل الفاظ تحریر کرکے اپنی بیوی کو ارسال کردیے۔ پروین میری عدم موجودگی میں گھر پر نہ آئے اور نہ ہی اب اس گھر میں آنے کا ارادہ کرے اور نہ خرچ کا انتظار کرے ، وہ اپنے لیے جو بہتر سمجھتی ہے کرے۔ یہ الفاظ لکھتے وقت زید مذکور کی یہ نیت تھی کہ پروین راہِ راست پر آجائے۔ کچھ دنوں کے بعد پروین نے اپنے شوہر کو خط لکھ کر وضاحت چاہی کہ آپ نے جوپیغام بزرگ کے ذریعے روانہ کیا تھا، کیا آپ نے مجھ کو اپنے عقد سے خارج کردیا ہے جیسا کہ آپ کی تحریر و طرزِ عمل سے ظاہر ہوتا ہے ۔ پھر تو مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں اپنا عقد ثانی کرلوں۔ زید مذکور نے اپنے جواب میں لکھا کہ میرے خاندان میں تو طلاق کسی نے دی ہے اور نہ میں دوں گا۔ اگر تم عقد ثانی کرنا چاہتی ہو تو خلع حاصل کرلو۔ مگر میرے زیورات اور میری اولاد جس پر میرا قانونی اور شرعی حق ہے مجھے دے دو۔ زید نے اپنے مکتوب میں تاکید کی ہے کہ طلاق ایک غیر شریفانہ فعل اور مکروہ عمل ہے۔ لہٰذا تم کو ہدایت ہے کہ اپنا گھر بساؤ ۔ اور سمجھداری سے کام لو۔ اس کے بعد دو سال سے زائد عرصہ ہو گیا کوئی جواب نہیں آیا۔ واضح فرمایا جائے کہ زید مذکور کے درج بالا الفاظ سے طلاق واقع ہو گئی ہے یا نہیں۔ اگر طلاق ہو گئی ہے تو اگر دونوں رجوع کے خواہشمند ہوں تو شرعی لحاظ سے کیا صورت ہو سکتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں فتویٰ عنایت فرمائیں۔ (سائل عبدالرحمن) (۹فروری ۱۹۹۰ء) جواب :صورتِ مسئولہ میں طلاق واقعی ہو چکی ہے۔ طلاق کے وقوع کے لیے ضروری نہیں کہ لفظ طلاق ہی استعمال ہو بلکہ ہر وہ لفظ جو طلاق کا مفہوم ادا کرے۔ اس سے طلاق ہو جاتی ہے۔ محولہ صورت میں بظاہر عدت بھی ختم ہوچکی ہے۔ لہٰذا عورت باختیار ہے۔ بااجازت ولی جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر باہمی رضا مندی سے سابقہ خاوند سے نکاح کرنا چاہے، تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ یاد رہے بعد از وقوع خاوند نے جو وضاحت کی وہ سب لغو کلام ہے۔ اس کی کوئی تاثیر نہیں۔ (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہُ اَتَمُّ۔)
Flag Counter