Maktaba Wahhabi

332 - 382
طلاقِ کنائی طلاق بالکنایۃ میں نیت طلاق ضروری ہے: سوال :میرے شوہر عبد اللہ نے مورخہ ۸ جون ۸۹ء کو کسی بات پر بگڑ کر مجھے کہا:’’میں نے تمھیں چھوڑ دیا، چھوڑ دیا، چھوڑ دیا۔‘‘ مجھے ان الفاظ کی حیثیت کا علم نہیں تھا۔ میں نے تقریباًایک ماہ کے بعد شوہر سے پوچھا کہ تم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے؟ کیا تمہارا ارادہ مجھے طلاق دینے کا تھا؟ کیا تم نے مجھے طلاق دے دی ہے؟ تو شوہر نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی۔ اس کے بعد اس نے ۱۲/ اگست ۸۹ء کو قسم کھا کر کہا … ’’میں عبد اللہ ، اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی۔ میں نے کہا تھا کہ میں نے تمھیں چھوڑ دیا‘‘ یہ الفاظ غیر ارادی طور پر کہے تھے۔ اس میں طلاق دینے کا مقصد نہیں تھا۔ میں نے تین دفعہ جو کہا تھا اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔‘‘ مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟ نیز اس بارے میں احناف کا نقطۂ نظر کیا ہے ؟ دلائل کی رُو سے راجح مذہب کون سا ہے ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمایا جائے۔ (سائلہ مسز حمیدہ۔کوئٹہ) جواب :اس سلسلہ میں مشہور شارح’’صحیح بخاری‘‘حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک ضابطہ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: (( أَنَّ کُلَّ کَلَامٍ أَفْہَمَ الْفُرْقَۃَ وَلَوْ مَعَ دِقَّتِہِ یَقَعُ بِہِ الطَّلَاقُ مَعَ الْقَصْدِ فَأَمَّا إِذَا لَمْ یُفْہَمِ الْفُرْقَۃُ مِنَ اللَّفْظِ فَلَا یَقَعُ الطَّلَاقُ وَلَوْ قَصَدَ إِلَیْہِ کَمَا لَوْ قَالَ کُلِی أَوِ اشْرَبِی أَوْ نَحْوَ ذَلِکَ ۔)) [1] ’’یعنی ’’ ہر وہ کلام جس سے علیحدگی کا مفہوم سمجھا جائے اگرچہ دقت ِ نظر سے کیوں نہ ہو بشرطیکہ ساتھ نیت کو بھی دخل ہو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ لیکن اگر کلام سے علیحدگی کا مفہوم نہ سمجھا جائے تو اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اگرچہ متکلم کا مقصود طلاق ہو جیسے کوئی شخص اپنی بیوی کو کہتا ہے تو کھا یا پی وغیرہ اس سے طلاق کا وقوع نہیں ہوگا۔‘‘ پھر موصوف نے متقدمین میں سے اس مسلک کی نسبت امام شعبی، عطا، اور عمرو بن دیناررحمۃ اللہ علیہم کی طرف کی ہے۔ جب کہ دوسری طرف امام شافعی، اوزاعی اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب قرار دیا ہے۔ اور امام طحاوی رحمہ اللہ حنفی نے اس مذہب کی صحت کے لیے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مشہور صحیح حدیث سے استدلال کیا ہے جس کے الفاظ یوں ہیں:
Flag Counter