Maktaba Wahhabi

349 - 382
تنظیم اہلحدیث ۵ اکتوبر ۱۹۹۵ء) جواب :صحیح مسلم میں حدیث ہے: ((کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً)) [1] بظاہر عدت بھی گزر چکی ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ ﴾ (البقرۃ:۲۲۸) ’’اور طلاق والی عورتیں تین قروء (حیض) اپنے تئیں روکے رہیں۔‘‘ لہٰذا عورت باجازت ولی جہاں چاہے نکاح ثانی کر سکتی ہے۔ واضح ہو کہ اگر کسی عارضہ کی وجہ سے تین ماہواریاں وقوع طلاق سے لے کر مکمل نہ ہو سکیں ہوں تو مزید انتظار کرنا ہوگا۔ یہاں تک کہ تین کا عدد پورا ہو۔ ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ظہار کا مسئلہ: سوال : میں’’ محمد اسلام ولد محمد امین‘‘ نے اپنی بیوی کو تحریری طور پر طلاق لکھ دی۔ جس کے الفاظ یوں تھے۔ ’’اسلامی قانون کے مطابق اللہ رکھی بنت یٰسین کو طلاق طلاق طلاق دیتا ہوں اور اسے اپنی ماں بہن کی طرح سمجھتا ہوں۔‘‘ شریعت اسلامیہ میں اس طلاق کا کیا حکم ہے ؟ (سائل : محمد اسلم ولد محمد امین) (۳۰ جولائی۱۹۹۹ء) جواب : مذکورہ بالا صورت میں راجح مسلک کے مطابق طلاق رجعی واقع ہوئی ہے۔’’صحیح مسلم‘‘میں حدیث ہے: (( کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً )) [2] لہٰذا شوہر عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزر جانے کی صورت میں دوبارہ نکاح کا بھی جواز ہے۔ دوسری طرف کفارۂ ظہار بھی ادا کرنا ہوگا۔ جس کی تصریح ’’سورۃ المجادلہ‘‘ کے شروع میں ہے۔ اور ازدواجی تعلقات سے قبل غلام آزاد کرنا ہے۔ پھر عدمِ دستیابی کی صورت میں ملاپ سے قبل دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنا ہے اگراس کی استطاعت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے۔ (آیت نمبر:۴)
Flag Counter