Maktaba Wahhabi

391 - 382
مطلقہ کا نان و نفقہ عورت کو ’’بری‘‘ میں ملنے والے تحائف کا حکم، نیز طلاق کی صورت میں بچے کا خرچہ: سوال : جناب مفتی صاحب۔ السلام علیکم۔ مندرجہ ذیل مسئلہ میں شریعت کی رُو سے فتویٰ دیا جائے تاکہ ہم قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرسکیں۔ ہماری بیٹی فائزہ امجد کی شادی عثمان فاروق سے ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۶ء کو طے پائی۔ شادی کے دن سے ہی عثمان فاروق نے غیر مناسب سلوک کرنا شروع کردیا۔ جس میں گالی گلوچ ، مارپیٹ اور ہر بات پر تکلیف دینا اور زِچ کرنا شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دوران ایک بیٹا بھی دیا۔ مگر جھگڑا اور تکرار شدت اختیار کرتا گیا اورعثمان فاروق نے ۹۸۔۱۱۔۲۴ کو پہلی طلاق بھیجی۔ پھر ۹۸۔۱۲۔۲۶ اور پھر ۹۹۔۲۔۳ کو تیسری طلاق بھیج دی۔ پھر ۲۴ فروری ۱۹۹۹ء کو عثمان فاروق نے ٹیلیفون پر میری بیٹی سے بات کی کہ میں تمہارے ساتھ اپنا گھر بسانا چاہتا ہوں۔ اور میں مانتا ہوں کہ ۷۰ فی صد غلطیاں مجھ سے ہوئی ہیں۔ پھر اُس نے کہا کہ صبح ۱۰ بجے مجھے بتاؤ کہ تم نے گھر واپس آنا ہے کہ نہیں۔ دوسرے دن میری بیٹی نے فون پر کہا کہ جو فیصلہ شریعت کرے گی وہ مانوں گی۔ شریعت کے حوالے سے بتایا جائے۔ ۱۔میری بیٹی کو شادی پر جو بَری میں کپڑے اور زیور دیے گئے تھے وہ چیزیں میری بیٹی کو دی جانی چاہئیں کہ نہیں؟ ۲۔مختلف وقتوں پر گھر والوں اور دیگر عزیزوں کی طرف سے جو تحائف دیے گئے تھے ان پر ہماری بیٹی کا حق ہے کہ نہیں؟ ۳۔بچہ ہمارے پاس ہے اس کے خرچے کے بارے میں بتایا جائے۔ (ایک سائل) (یکم جولائی ۱۹۹۹ء) جواب : مذکورہ بالا صورت میں عرفِ عام کے مطابق فیصلہ ہو گا۔ ہمارے ماحول اور معاشرہ میں چونکہ عام طور پر یہ معروف ہے کہ ایسی حالت میں کپڑوں وغیرہ سے جو چیز عورت کو دی جاتی ہے وہ اس کی ملکیت تصور ہوتی ہے۔ بخلاف زیور کے اس کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ لہٰذا بایں صورت کپڑے واپس کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ زیور واپس کردینا چاہیے۔ بشرطیکہ اس کا شمار حق مہر میں نہ ہو۔ فقہائے کرام کے ہاں قاعدہ معروف ہے : (( اَلْمَعْرُوْف کَالْمَشْرُوْطِ )) ۲۔عورت کو مختلف اوقات میں جو تحائف میسر آئے ہیں وہ اسی کا حق ہے واپس لینا غیر درست ہے۔ ۳۔بچوں کا خرچہ والد کو ادا کرنا ہو گا کیوں کہ اس کی اولاد ہیں۔ بشرطیکہ اولاد کی پرورش میں اس کی مرضی کو بھی بمطابق شرع عمل دخل ہو۔
Flag Counter