Maktaba Wahhabi

84 - 382
ایک دفعہ ہی کافی ہے کیونکہ اصل عدم تعدد ہے۔ تین بار کی ضرورت نہیں بلکہ بعض کے نزدیک بعد والا پہلے کے لیے فسخ ہو گا۔ اور طلاق کو متعدد دفعہ اس لیے رکھا گیا ہے۔ شاید کہ زوجین کی مصالحت کی کوئی صورت نکل آئے۔ قرآنی آیت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ ﴿ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ﴾ (الطلاق:۱) نکاح شرعی میں خطبہ مسنونہ کے بعد ’’قبول ‘‘ کہنے کی تعداد: سوال : کیا احناف کے نزدیک خطبہ مسنونہ کے بعد صرف ایک دفعہ ایجاب وقبول سے نکاح درست ہے یا نہیں؟(محمد یعقوب۔ایبٹ آباد) (۲۰ اکتوبر ۱۹۹۵ء) جواب : نکاح میں ایجاب و قبول اصل ایک ہی دفعہ ہے۔ حنفیہ ہوں یا دوسرے سب اس بات کے قائل ہیں۔ بلکہ متعدد دفعہ کے ایجاب و قبول کو بعض نے نسخ سمجھ لیا ہے۔ جن سے دیگر اہل علم نے موافقت نہیں کی۔ ایجاب و قبول کی تعداد تین مرتبہ یا ایک مرتبہ ؟ سوال : نکاح کے وقت ولی کی اجازت کے باوجود لڑکی سے پوچھنا شرعاً کیسا ہے ؟ نیز دلہا کو ایجاب و قبول کراتے وقت تین مرتبہ قبول کروانا لازمی ہے ؟ رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں قبول کتنی مرتبہ کروایا جاتا تھا؟ (سائل) (۱۲ جنوری ۲۰۰۱) جواب : نکاح کا انعقاد ولی اور لڑکی کی طرف سے اجازت کے بعد ہونا چاہیے، کیونکہ شریعت نے دونوں کو اِذْن کا استحقاق دیا ہے۔ فرمایا: ((أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ۔))[1] عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَأْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ :قَالُوا: یَا رَسُول اللّٰه وَکَیف إِذْنہَا؟ قَالَ: أَن تسکت۔))[2] اصلاً ایجاب و قبول صرف ایک دفعہ ہے۔ اسی پر اکتفا کرنی چاہیے۔ ملاحظہ ہو : المغنی ابن قدامہ(۱/۴۵۹) حدیث الخاتم میں ہے:
Flag Counter